Skip to content
Menu
تنبیہات
  • تعارف
  • تنبیہات
  • تحقیقی پوسٹ
  • کتابیات
  • مختصر نصیحت
  • ویڈیوز
  • PDF
  • جواہرالقرآن
  • بیٹھک
  • رابطہ
  • سبسکرائب
تنبیہات

تنبیہ نمبر167

Posted on 12/01/201924/03/2020 by hassaan

ساتھیوں کی خدمت گذاری

سوال :ایک واقعہ سنتے آرہے ہیں کہ آپ علیہ السلام ایک سفر میں ساتھیوں کے ساتھ تھے کہ کھانا پکانے کی ضرورت پیش آئی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ لکڑی جمع کرنا ہمارے ذمے ہے…کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور واقعہ سیرت اور مواعظ کی بہت ساری کتابوں میں منقول ہے.

امام طبری رحمه اللہ نے اس روایت کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ آپ علیہ السلام ایک سفر میں ساتھیوں کے ساتھ تھے تو ایک بکری ذبح کرنے کا ارادہ ہوا، ایک ساتھی نے کہا کہ ذبح کرنا میرے ذمے ہے، دوسرے نے کہا کہ کھال اتارنا میرے ذمے، تیسرے صحابی نے کہا کہ پکانا میرے ذمے، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ لکڑی جمع کرنا ہمارے ذمے ہے، تو صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! ہم کافی ہیں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ کافی ہو لیکن مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں تم سے اونچا اور الگ رہوں، کیونکہ اللہ تعالی ایسے بندے کو ناپسند کرتے ہیں جس کی اپنے ساتھیوں میں امتیازی شان ہو اور آپ علیہ السلام نے لکڑیاں جمع کیں.

قال المحب الطبري رحمه الله في “خلاصة سير سيد البشر” (ص:87): وَكَانَ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فِي بعض أَسْفَاره، فَأمر بإصلاح شاة، فَقَالَ رجل: يَارَسُول الله! عَليّ ذَبحهَا، وَقَالَ آخر: عَليّ سلخها، وَقَالَ آخر: عَليّ طبخها، فَقَالَ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: “وَعليّ جمع الْحَطب”. فَقَالُوا يَارَسُول الله! نَحن نكفيك. فَقَالَ: “قد علمت أَنكُمْ تكفوني، وَلَكِنِّي أكره أَن أتميز عَلَيْكُم؛ فَإِن الله يكره من عَبده أَن يرَاهُ متميزا بَين أَصْحَابه، وَقَامَ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم وَجمع الْحَطب”.
– وكذا ذكره المقريزي في “إمتاع الأسماع” (2/188(
– والصفدي في “الوافي بالوفيات” (1/71(
– والنويري في “نهاية الأرب” (18/258(
– والحرضي في “بهجة المحافل” (2/284(
– والقارئ في جمع الوسائل (2/129(
– والعصامي في “سمط النجوم” (2/310[(.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:

یہ روایت تمام کتب میں بغیر سند کے ہی منقول ہے.

علامہ سخاوی نے اس روایت کے ایک حصے کو ذکر کرکے فرمایا کہ میں اس روایت کو نہیں جانتا (یعنی اسکی کوئی أصل یا سند نہیں ملی(

وفي “المقاصد الحسنة” برقم (247): حَدِيث: “إِنَّ اللهَ يَكْرَهُ الْعَبْدَ الْمُتَمَيِّزَ عَلَى أَخِيهِ”، لا أعرفه.
ونقله العجلوني في “كشف الخفاء” برقم (765) ونقل كلام السخاوي عليه، ومثله: الحوت في “أسنى المطالب” (ص:83(

كتاب “الجد الحثیث فی بیان ما لیس بحدیث” میں مصنف لکھتے ہیں کہ باوجود شہرت کے اس واقعے کی سند یا کوئی أصل موجود نہیں.

قال في الجد الحثيث في بيان ما ليس بحديث: هذا الأثر على شهرته لا يعرف له إسناد. (ج:1، ص:64(
خلاصہ کلام

آپ علیہ السلام کے أعلی أخلاق کا تو خود قرآن مجید شاہد ہے کہ فرمایا اِنَّكَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِيْمٍ لیکن سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند (صحیح یا ضعیف) سند سے کہیں بھی منقول نہیں، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

Share on:
WhatsApp
fb-share-icon
Tweet
جلد4

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تلاش کریں

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

حالیہ تنبیہات

  • تنبیہ نمبر 390
  • تنبیہ نمبر 389
  • تنبیہ نمبر 388

شئیر کریں

Facebook
Facebook
fb-share-icon
Twitter
Post on X
YouTube
Telegram
©2025 تنبیہات | Powered by Superb Themes