Skip to content
Menu
تنبیہات
  • تعارف
  • تنبیہات
  • تحقیقی پوسٹ
  • کتابیات
  • مختصر نصیحت
  • ویڈیوز
  • PDF
  • جواہرالقرآن
  • بیٹھک
  • رابطہ
  • سبسکرائب
تنبیہات

تنبیہ نمبر144

Posted on 03/11/201824/03/2020 by hassaan

بچوں کا شاتمِ رسول کو قتل کرنا

سوال: ایک واقعہ سنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کچھ لڑکے ایک کھیل کھیل رہے تھے کہ انکی گیند ایک پادری کے سینے پر جا کر لگی،  اس پادری نے گیند اپنے پاس رکھ لی اور دینے سے انکار کیا،  ان میں سے ایک لڑکے نے کہا کہ آپ کو محمد علیہ السلام کا واسطہ آپ گیند دے دیں،  تو اس پادری نے انکار کیا اور آپ علیہ السلام کو گالی دی، لڑکوں نے جب یہ بات سنی تو اپنی لاٹھیاں لے کر اس پادری کو مارنے لگے یہاں تک کہ وہ پادری مرگیا. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب اس کی خبر دی گئی تو وہ اس خبر سے اتنے خوش ہوئے جتنا آپ کسی بھی فتح یا غنیمت سے خوش نہیں ہوئے تھے اور اس پادری کے خون کو معاف قرار دیا اور فرمایا کہ آج اسلام کو اصل عزت ملی ہے کہ بچوں نے اپنے نبی کے گستاخ کو قتل کیا… کیا یہ واقعہ درست ہے؟

الجواب باسمه تعالی

اس واقعے کو امام زمخشری نے اپنی کتاب “ربیع الأبرار ونصوص الأخیار” میں نقل کیا ہے، اسی طرح  “المستطرف فی کل فن مستظرف”  میں بھی یہ قصہ نقل کیا گیا ہے کہ

بحرین کے کچھ لڑکے اپنی لکڑیوں سے ایک کھیل (ہاکی نما) کھیل رہے تھے…..الی آخرہ

كان من صبية البحرين وقتلهم لنصراني!!ذكر الزمخشريُّ وغيره في كتابه “ربيع الأبرار ونصوص الاخیار” حكايةَ غلمانٍ صبيةٍ من أهل البحرين، خرجوا يلعبون بالصوالجة فوقعت الكرة على صدر أُسقُفٍ من النصارى، فأخذها ومنعها عنهم، وجعلوا يطلبونها منه فيأبى، فقال غلامٌ منهم: سألتك بحقِّ محمدٍ صلى الله عليه وسلم إلا رددتها علينا، فأبى، وسبَّ النبي صلى الله عليه وسلم، فما أن سمع الأغلمةُ رسولَ الله يُشتمُ حتى أقبلوا عليه بصوالجهم، فما زالوا يخبطونه ويضربونه حتى مات لعنه الله. فرُفع ذلك إلى عمر رضي الله عنه، فوالله ما فَرِح بفتحٍ ولا غنيمةٍ كفرحته بقتل الغِلمان لذلك الأُسْقُف. وقال: الآن عزَّ الإسلام، إن أطفالًا صغارًا شُتِمَ نبيُّهم فغضبوا له وانتصروا.
خلاصہ کلام

یہ واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں موجود نہیں، اور جن کتب میں موجود بھی ہے تو وہاں اس کی کوئی سند منقول نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ مجہول صیغے کے ساتھ نقل کیا گیا ہے جو اس کی کمزوری کی طرف اشارہ ہے  اور صحابہ کے زمانے کا واقعہ ہونے کی وجہ سے اس کی سند کا ہونا ضروری ہے،  لہذا یہی کہا جائےگا کہ اس واقعے کا واقع ہونا فی نفسہ ناممکن نہیں لیکن سند کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کی نسبت میں احتیاط بہتر ہے .

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٣ نومبر ٢٠١٨


Share on:
WhatsApp
fb-share-icon
Tweet
قتل شاتمِ رسول گستاخ
جلد3

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

تلاش کریں

Generic selectors
Exact matches only
Search in title
Search in content
Post Type Selectors

حالیہ تنبیہات

  • تنبیہ نمبر 387
  • تنبیہ نمبر 386
  • تنبیہ نمبر 385

شئیر کریں

Facebook
Facebook
fb-share-icon
Twitter
Post on X
YouTube
Telegram
©2025 تنبیہات | Powered by Superb Themes