غرق ہونے والے کا قرض بھی معاف
سوال
محترم مفتی صاحب!
آپ نے فرمایا تھا کہ غرق ہونے والے کا قرض معاف نہیں ہوتا، جبکہ بنوری ٹاؤن کے فتوے میں موجود ہے کہ اس کا قرض بھی معاف کردیا جاتا ہے…
برائے مہربانی اس پر نظر ثانی فرمائیں…
(سائل: عبید الرحمن عباسی، کراچی)
الجواب باسمه تعالی
سب سے پہلے تو یہ بات سمجھ لینی چاہیئے کہ شہید کی سب سے اعلی قسم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرتے ہوئے خون بہاتے ہیں، باقی تمام شہداء حکمی شہید ہیں.
اب حقیقی شہید کے بارے میں جب آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے پوچھا گیا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ اسکے سارے گناہ معاف ہونگے سوائے قرض کے، اور یہی جبریل مجھے بتا کر گئے ہیں.
فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: نعم، وأنت صابر محتسب مقبل غير مدبر إلا الدين فإن جبريل عليه السلام قال لي ذلك. (مسلم)
اب جب تمام صحیح روایات حقیقی شہید کیلئے قرض کی معافی کا انکار کرتی ہیں، تو ایسے میں اس روایت سے غرق ہونے والے کیلئے قرض کی معافی، امانت کی معافی اور اس کی روح اللہ تعالیٰ خود قبض کرتے ہیں، جیسی کمزور باتیں کیسے ثابت ہو سکتی ہیں.
بہرحال اس سب سے پہلے اس روایت پر نظر ڈالتے ہیں جو اس موضوع سے متعلق منقول ہے.
ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”سمندر کا شہید خشکی کے دو شہیدوں کے برابر ہے، سمندر میں جس کا سر چکرائے وہ خشکی میں اپنے خون میں لوٹنے والے کی مانند ہے، اور ایک موج سے دوسری موج تک جانے والا اللہ کی اطاعت میں پوری دنیا کا سفر کرنے والے کی طرح ہے، اللہ تعالیٰ نے روح قبض کرنے کے لئے ملک الموت (عزرائیل) کو مقرر کیا ہے، لیکن سمندر کے شہید کی جان اللہ تعالیٰ خود قبض کرتا ہے، خشکی میں شہید ہونے والے کے قرض کے علاوہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، لیکن سمندر کے شہید کے قرض سمیت سارے گناہ معاف ہوتے ہیں“۔
حدثنا عبيد الله بن يوسف الجبيري، حدثنا قيس بن محمد الكندي، حدثنا عفير بن معدان الشامي، عن سليم بن عامر، قال: سمعت أبا أمامة، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: “شهيد البحر مثل شهيدي البر، والمائد في البحر كالمتشحط في دمه في البر، وما بين الموجتين كقاطع الدنيا في طاعة الله، وإن الله عزوجل وكل ملك الموت بقبض الارواح إلا شهيد البحر؛ فإنه يتولى قبض أرواحهم، ويغفر لشهيد البر الذنوب كلها إلا الدين، ولشهيد البحر الذنوب والدين”.
رواه ابن أبي شيبة في “مصنفه”، كتاب فضل الجهاد، حديث رقم(102)، أخرجه ابن ماجه في سننه من حديث أبي أمامة رضي الله عنه، في “كِتَاب الْجِهَادِ”، بَاب فَضْلِ غَزْوِ الْبَحْرِ، حديث رقم(2768).
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں دو راوی ہیں جن کی وجہ سے یہ روایت انتہائی کمزور ہو گئی ہے.
١. پہلے راوی عفير بن معدان
امام مزی نے تهذیب الکمال ج: ٢٠، صفحة: 177 میں ان کے بارے میں محدثین کے اقوال نقل کئے ہیں:
١. امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے.
قال أحمد بن أبي يحيى عن أحمد بن حنبل: ضعيف، منكر الحديث.
٢. یحيی بن معین کہتے ہیں کہ یہ کچھ بھی نہیں.
وقال إسحاق بن منصور، عن يحيى بن معين: لا شىء.
٣. محمد بن شعيب کہتے ہیں کہ میں عفیر کی روایات سے بری ہوں.
وقال أبو مسهر: قال محمد بن شعيب: أبرأ إليكم من حديث عفير بن معدان وسعيد بن سنان.
٤. ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے عفیر کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ ضعیف الحدیث ہے، اور ایسی روایات آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف منسوب کرتا ہے جس کی کوئی اصل نہیں ہوتی.
وقال عبدالرحمان بن أبي حاتم: سألت أبي عن عفير بن معدان: فقال: ضعيف الحديث، يكثر الرواية عن سليم بن عامر، عن أبي أمامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ما لا أصل له، لا يشتغل بروايته.
٥. امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ نہیں اور اس کی روایات نہیں لکھی جائیں گی.
وقال النسائي: ليس بثقة ولا يكتب حديثه.
٦. ابن عدی کہتے ہیں کہ اس کی روایات محفوظ نہیں.
وقال أبو أحمد بن عدي: وعامة رواياته غير محفوظة.
٧. امام ذہبی کہتے ہیں کہ اس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے. ابوحاتم کہتے ہیں کہ اس کی روایات میں مشغول نہیں ہونا چاہیئے.
أورده الذهبي في “الضعفاء” وقال: مجمع على ضعفه.
قال أبوحاتم: لا يشتغل به.
٢. دوسرے راوی قیس بن محمد الکندی ہے.
یہ راوی اگرچہ فی نفسه مقبول ہے، لیکن ابن حبان کہتے ہیں کہ جب یہ عفیر بن معدان سے روایت نقل کرے تو پھر اس کی روایت معتبر نہیں.
قال ابن حبان: يعتبر حديثه من غير روايته عن عفير بن معدان.
خلاصہ کلام
یہ روایت سند کے لحاظ سے درست نہیں، اس پر سب سے کم حکم بھی منکر کا لگےگا، کیونکہ ایک ضعیف راوی نے ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے.
تمام مشہور اور صحیح روایات یہی کہتی ہیں کہ شہید فی سبیل اللہ کیلئے قرض معاف نہیں ہے، لہذا اس روایت کو مخالفت ثقات کی وجہ منکر ناقابلِ اعتبار قرار دیا جائےگا، اور بنوری ٹاؤن کا فتوی لکھنے والے اگر خود اپنے حوالے پر غور کرتے تو وہاں واضح طور پر ضعیف جدا لکھا ہوا تھا.
باقی تمام دارالافتاءوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ خدارا کسی روایت کے متعلق جواب کسی متخصص فی الحدیث سے ہی لکھوائیں، ہر جگہ ضعیف قابلِ عمل والا فارمولا کام نہیں آتا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٧ اگست ٢٠٢٢ کراچی