کتابیات سلسلہ نمبر2


سوشل میڈیا پر مختلف واقعات کے حوالے کے طور پر کتاب “بحار الانوار” (مصنفہ: علامہ مجلسی) کا نام ملتا ہے اور اکثر ساتھی اس کتاب کی حقیقت کے بارے میں پوچھتے ہیں…

● مصنف باقر مجلسی کا تعارف:

محمد باقر مجلسی شیعوں کے متاخرین مصنفین میں سے ہیں۔ گیارھویں صدی میں ایران کے علمائے شیعہ میں انکا ایک بڑا مقام تھا.علامہ مجلسی نے 110 جلدوں میں بحار الانوار نامی روایات کی کتاب لکھی.

□ هو من متأخرى المحدثين وأبرزهم (المتوفى عام 1110هـ) وأشهر علماء الشيعة الامامية في الدولة الصفوية بحيث تأثر فيه جميع من جاء بعده من المحدثين. أما عن شخصية المجلسي وآثاره فقد أورد حاله العلامة في التذكرة وغالباما يطلق عليه أنه من اقطاب مذهب الامامية والمحيي لأحاديثهم أو خادم علوم أهل البيت كما تحدث عنه صاحب كتاب “لؤلؤة البحرين” وقال: هذا الشيخ كان امامنا في وقته في علم الحديث وسائر العلوم، شيخ الاسلام بدار السلطنة اصفهان، رئيسا فيها بالرئاستين الدينية والدنيوية، إماما في الجمعة والجماعة، وهو الذي روج الحديث ونشره لا سيما في ديار العجمية وترجم لهم الأحاديث العربية بأنواعها بالفارسية.
● کتاب بحار الانوار کا تعارف:

علامہ مجلسی کی یہ کتاب تاریخ کی متنازعہ ترین کتاب کہلانے کی حقدار ہے.کیا عرب کیا عجم کیا سنی کیا شیعہ سب علماء نے اس کتاب پر اور اس کی روایات پر شدید تنقید کی اور ویکیپیڈیا کے مطابق ایران میں اس کتاب کی بعض جلدوں کی طباعت پر پابندی بھی لگائی گئی ہے جن جلدوں میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی ہے.

علامہ مجلسی کی یہ کتاب تاریخ کی متنازعہ ترین کتاب کہلانے کی حقدار ہے.کیا عرب کیا عجمکیا سنی کیا شیعہسب علماء نے اس کتاب پر اور اس کی روایات پر شدید تنقید کی اور ویکیپیڈیا کے مطابق ایران میں اس کتاب کی بعض جلدوں کی طباعت پر پابندی بھی لگائی گئی ہے جن جلدوں میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی ہے.
● اس کتاب کے بارے میں شیعہ علمائےکرام کی رائے:
پہلی رائے:

علامہ مجلسی کی اہم تصنیف بحار الانوار جو کہ 110 جلدوں پر مشتمل ہے، اس میں سابقہ کتبِ شیعہ سے روایات لی گئی ہیں، لیکن ایسی روایات بھی نقل کی ہیں کہ جن پر خود علامہ مجلسی کو اعتماد نہیں تھا.گویا علامہ مجلسی کی کتاب ہر طرح کی روایات سے بھر گئی جن میں صحیح (مذہب امامیہ کی نظر میں) ضعیف، من گھڑت ہر طرح کی روایات جمع ہوگئیں اور بعد میں یہی روایات صحیح اور غلط کی پہچان کے بغیر ہی لوگوں میں عام ہوگئیں اور عوام نے خرافات کو جوڑ کر کہانیاں بنالیں.

□ وأهم مصنفات المجلسي هو “بحار الأنوار الجامعة لدرر الأخبار الأئمة الاطهار” الذي اشتهر شهرة كبيرة بين الشيعة وصار مرجع المحدثين للفرقة الامامية. وقد طبع هذا الكتاب أخيرا في مائة وعشرة اجزاء، وقد استفاد المجلسي في هذا الكتاب من كتب القدماء والمعاصرين له واحيانا ينقل الأحاديث عن الكتب التي لا يعتمد هو عليها، وكمثال على ذلك ما ورد في المجلد السابع والخمسين حيث قال بعد أن أورد حديثا غريباً من كتاب “جامع الأخبار”: أوردها صاحب الجامع فأوردتها ولم أعتمد عليها.وايضا روى في هذا المجلد أيضا نفسه خبرا آخر عن الشيخ الصدوق ثم قال بعد ذلك: أقول: الخبر في غاية الغرابة ولا اعتمد عليه لعدم كونه مأخوذا من أصل معتبر وإن نسب الى الصدوق.وعلى هذا الاساس فإنّ المجلسي وخلافا للكليني وابن بابويه لم يجمع في كتابه الأحاديث الصحيحة والمعتمدة لديه بل كان بصدد جمع الأخبار في كتابه هذا، ومن هنا كثرت الأخبار المجعولة والموهومة في هذا الكتاب الى جانب الأخبار الصحيحة والنافعة وقد انتشرت هذه الأخبار بين الناس بدون التصريح بجعلها وكذبها وسببت تلويث ذهنية العوام ومزجها بالخرافات والأساطير والعقائد المغالية.

علامہ مجلسی نے اپنی کتاب میں بعض روایات کے من گھڑت ہونے کی وضاحت ضرور کی ہے لیکن یہ وضاحت اتنی کم جگہ ہوئی ہے کہ اکثر جگہ من گھڑت روایات بغیر صراحت کے ہی نقل ہوگئیں.

□ ورغم أن توضيح المجلسي في ذيل بعض الأخبار الغريبة قد يكون مفيدا احيانا إلا أنه لا يكفي في المقام، مضافا أنه سكت عن الكثير من الأخبار التي ورد في مضمونها غلو وأباطيل كثيرة، ولهذا احتاج كتاب (بحارالأنوار) الى نقد كثير وواسع ولابد أن يفصل له كتاب مستقل.
○ سلیم الحسنی (غالبا شیعہ) لکھتے ہیں:

علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں ہزاروں روایات اور احادیث نقل کیں، یہ کتاب 110 جلدوں پر مشتمل ہے، اس کتاب کا انداز اس قدر آسان ہے کہ ہر شخص اس سے استفادہ حاصل کرسکتا ہے.یہ کتاب شیعہ مصنفین، خطباء اور علماء کی نظر میں اہم کتاب رہی ہے.

علامہ مجلسی نے اس کتاب میں 400 شیعہ کتب اور 100 اہل سنت  کی کتابوں پر اعتماد کیا ہے.لیکن علامہ مجلسی کو یہ اندازہ ہرگز نہ ہوگا کہ ان کی کتاب ایک زمانے میں جہالت اور خرافات کا منبع بنےگی اور مجلس عزا کے خطیب اس کتاب کی بنیاد پر لوگوں کے عقیدے برباد کرینگے، اور بعد میں لوگوں نے اس کتاب کو ایک مقدس کتاب بنا لیا گویا کہ اس میں موجود ہر بات صحیح ہے. (ملخص)

□ قال سليم الحسني:
في عام 1111 للهجرة أي قبل أكثر من ثلاثة قرون، توفي العلامة محمد باقر المجلسي، وقد ترك عدة كتب أشهرها كتاب (بحار الأنوار)، وقد اشتهر هذا الكتاب شهرة واسعة، وتكررت طبعاته عشرات المرات.جمع المؤلف فيه مئات الآلاف من الروايات والأحاديث من كتب قديمة، فبلغ مجموع أجزائه (110) مجلدات. وقد كان عمله متقناً من حيث التبويب، مما سهّل تداوله بين المهتمين الذين وجدوا فيه سهولة الحصول على المواضيع بحسب أبوابها.صار كتاب البحار، من المصادر المعتمدة لدى المهتمين بالتراث الشيعي، وخصوصاً الكتّاب والخطباء، حيث يجدون فيه الروايات والأحاديث عن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وأئمة أهل البيت، مما يتعذر الحصول عليها في مصادر أخرى.اعتمد العلامة المجلسي في كتابه هذا، على ما يقرب من أربعمائة كتاب شيعي، ومائة كتاب من أهل السنة.لكن المجلسي بعمله هذا لم يكن يدرك أنه سيأتي زمن يتحول كتابه الذي كان يرجو منه الفائدة وحفظ التراث، الى كارثة معرفية في مجال الحديث المروي عن أهل البيت. وأنه سيتحول الى واحد من أكبر مصادر التجهيل والخرافة لدى الناس البسطاء. بل سيكون مادة تدخل في تشكيل معتقداتهم على حساب المعتقدات الصحيحة عندما يسمعها الناس من الخطباء في مجالس العزاء، أو يقرأونها في كتابات المؤلفين، من دون تحقيق وتدقيق، او حين يرجعون مباشرة الى هذا الكتاب.طغت شهرة كتاب (بحار الأنوار) على علميته المطعونة، فتداوله معظم الخطباء يغترفون منه الروايات والأحاديث، يوفرون على أنفسهم جهد التحقيق والبحث، متكئين على سمعة الكتاب وسمعة مؤلفه الذي صارت له منزلة سامية، كما هي العادة في مجتمعاتنا. فالشهرة الدينية تتحول بتقادم الزمان الى قداسة، وما يكتبه ويقوله الشخص المقدس، يتحول الى حقيقة لا يدانيها الشك، ومن يقترب منها يضع يده في نار حرّاقة، وتناله لعنة البسطاء الجاهزين للعن والطعن لإثبات ولائهم وللبرهنة على ذوبانهم في حب أهل البيت عليهم السلام.
○ سلیم الحسنی آگے لکھتے ہیں:

علامہ مجلسی نے اس کتاب میں علمی اور تحقیقی اعتبار سے وہ غلطیاں کی ہیں جو کوئی بھی عالم یا محقق کسی روایات کی کتاب میں نہیں کرتا.

□ وقع المجلسي في كتابه الذائع الصيت هذا، في أخطاء قاتلة على مستوى البحث العلمي والقواعد المعتمدة في علم الرجال ودراية الحديث، لا يمكن أن يقع فيها عالم بهذا المجال. ويبدو أنه مرّ بانعطافة في حياته دعته الى تغيير اتجاهه، واعتماد الروايات والاحاديث التي دوّنها في كتابه.
□ سلیم الحسنی کے کلام کا خلاصہ:

علامہ مجلسی نے یہ کتاب بغیر تحقیق اور تدقیق کے لکھی ہے اور اس میں صحیح اور غیر صحیح ہر چیز موجود ہے، لیکن عمومی خطباء اور لوگوں نے اس کو صحیح بخاری والا اعتبار دیا (یعنی گویا کہ اس کتاب کی ہر بات درست اور صحیح ہے) اور یہی سب سے بڑی غلطی ہوئی، پھر بعد میں خطباء نے اس کتاب کو مقدس بنانے میں کوئی کمی نہ چھوڑی. (ملخص)

□ كتاب (البحار) جُمع بدون تحقيق أو تدقيق، فيه الصحيح وغير الصحيح، لكن غالبية الخطباء والناس مدوا أيديهم اليه واعتبروه مثل صحيح البخاري، كل ما فيه صحيح، وهنا وقعت الكارثة وهي اعتبار (بحار الأنوار) كتاباً صحيحاً لا يأتيه الباطل من بين يديه ولا من خلفه، وهي نقطة انحراف خطيرة عن فكر التشيع الذي يعتبر القرآن فقط هو الكتاب الصحيح.ثم تلتها كارثة أكبر هي: سكوت العلماء على مسلك معظم الخطباء في تقديس (بحار الأنوار) ورفعه الى درجة الصحيح! هذا السكوت اعتبره معظم الناس اقراراً منهم بصحته.
○ شیخ آصف محسنی لکھتے ہیں:

بحار الانوار میں ایسے جراثیم موجود ہیں جو پینے والوں کو نقصان دے سکتے ہیں کیونکہ اس کتاب میں مشکوک اشیاء اور ایمان کیلئے مضر کلام موجود ہے. (ملخص)

□ كذلك يقول الشيخ آصف محسني: ولاجله اقدم الفقير على كتابة هذه التعليقة وبناء هذه المشرعة حتى يعلم اهل العلم المتوسين ان في بحار العلامة المجلسي (مع كونها بحار الانوار) جراثيم مضرة لشاربها ومواد غير صحيحة لابد من الاجتناب عنهما، واشياء مشكوكة ومشتبهة وجب التوقف فيها، ومن يشرب من بحار انواره فليجيء إلى المشرعة فانها مناسب للاستستق.
○ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

بحار الانوار درحقیقت ایسی روایات کا سمندر ہے جس سے صرف وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جو روایات (کی صحت، ضعف وغیرہ) کا پورا علم رکھنے والا ہو.

□ ويقول أيضاً في مورد آخر من مقالته: بحار الأنوار هي في الحقيقة بحار أمواجها عاتية، ولن ينال أنوارها إلا من تسلَّح بمعرفة الأحاديث، واستقال بنفسه عمّا يخالف العقل.

○ سید کمال الحیدری بحار الانوار کے متعلق شیعہ علماء کی رائے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

کیا علامہ مجلسی نے اس کتاب میں صحیح روایات کو جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے؟علامہ حیدری لکھتے ہیں کہ شیعوں کے ہاں اسکے متعلق دو رائے ہیں:

١. پہلی رائے:

شیعوں کے ہاں مشہور رائے یہی ہے کہ علامہ مجلسی نے اس کتاب میں سب صحیح جمع نہیں کئے بلکہ اس میں ہر طرح کا رطب و یابس جمع کیا گیا ہے، اس کی ایک دلیل اس کتاب کا نام اور دوسری دلیل اس کتاب میں من گھڑت روایات کا موجود ہونا ہے. (ملخص)

□ حقيقة موقف العلامة المجلسي من مرويات «بحار الأنوار» طرح السيد كمال الحيدري (حفظه الله) هذا السؤال: هل كان العلامة المجلسي معتقد بصحة جميع الروايات التي أوردها في كتابه بحار الأنوار أو لا؟
وفي مقام الإجابة على هذا السؤال ذكر بأن هناك رؤيتان:
١. الرؤية الأولى: وهي الرؤية المشهورة والمتداولة على الألسن، وهي القائلة بأن العلامة المجلسي لم يكن بصدد تصحيح كل ما أورده من نصوص روائية في كتابه، وإنما أراد أن يجمع فيه الغث والسمين. ومن ضمن الذين يتبنون هذه الرؤية العلامة الشعراني والسيد الخميني. وأما الشواهد التي اعتمد عليها أصحاب هذه الرؤية فهي كالآتي:*١. الأوّل:* دلالة عنوان الكتاب «بحار الأنوار»: إذ من الواضح كما يُقال بأن البحار يوجد فيها الحجر والمدر كما يوجد فيها اللؤلؤ والمرجان، فالبحار «اسم الكتاب» أسم على مسمى.
*٢. الثاني:* الروايات الموضوعة: إذ أن هناك روايات كثيرة في البحار نقطع بأنها موضوعة وليست صادرة عن الأئمة عليهم أفضل الصلاة والسلام
● اہل سنت کی رائے:

حدیث کی تحقیق کرنے والے ایک مستند ادارے سے جب اس کتاب کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ یہ کتاب جھوٹ، گمراہی اور بےسند چیزوں کی بھرمار ہے.

□ كتاب “بحار الأنوار” لمحمد باقر المجلسي، أحد كتب الشيعة الروافض، وهو (في حقيقته) بحار طافحة من المكذوبات والضلالات التي لا يُدرَى لها أصل، ولا يعرف لها سند، إلا دين الروافض البدعي الباطل.
خلاصہ کلام

بحار الانوار درحقیقت شیعوں کی من گھڑت باتوں سے بھری ہوئی ایک ایسی کتاب ہے جس پر خود شیعہ محققین کو بھی اعتماد نہیں، لہذا اس کتاب کے حوالے سے نقل شدہ کوئی بھی بات معتبر نہیں اور نہ ہی اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست ہے.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

٢٨ ستمبر ٢٠١٩ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں