میت کے جسم سے نہلانے والی کے ہاتھ کا چمٹ جانا
سوال :ایک واقعہ کثرت سے بیان کیا جاتا ہے کہ ایک عورت کا جب انتقال ہوا تو اسکو نہلانے والیوں میں سے ایک عورت کا ہاتھ اس میت کے جسم سے چمٹ گیا، پھر امام مالک رحمہ اللہ کے کہنے پر اسکو کوڑے مارے گئے… کیا یہ واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
یہ واقعہ مختلف کتابوں میں مذکور ہے لیکن جن حضرات نے اس واقعے کی تحقیق کی ہے انہوں نے اس واقعے کو موضوع قرار دیا ہے. علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس واقعے کو نقل کرکے فرمایا کہ یہ واقعہ مجھے کچھ اس طرح لکھا ہوا ملا ہے، مجھے لگتا ہے کہ یہ راوی کا خود سے بنایا گیا واقعہ ہو.
وجدت له حكاية (يشبه أن يكون من وضعه) قرأت بخط الحافظ قطب الدين الحلبي ما نصه وسيدي أبي عبدالرحمن بن عمر بن محمد بن سعيد وجدت بخط عمي بكر بن محمد بن سعيد ثنا يعقوب بن إسحاق بن حجر العسقلاني املأ قال ثنا إبراهيم بن عقبة حدثني المسيب بن عبدالكريم الخثعمي حدثتني أمةالعزيز امرأة أيوب بن صالح صاحب مالك قالت: غسلنا امرأة بالمدينة فضربت امرأة يدها علی عجيزتها فقالت: ما علمتك إلا زانية أو مابونة فالتزقت يدها بعجيزتها فأخبروه مالكا؛ فقال: هذه المرأة تطلب حدها فاجتمع الناس فأمر مالك أن تضرب الحد فضربت تسعة وسبعين سوطا ولم تنتزع اليد فلما ضربت تمام الثمانين انتزعت اليد وصلی على المرأة ودفنت…
اس واقعے کی سندی حیثیت:
اس واقعے کا اہم راوی جو اس واقعے کو لکھوانے والا ہے وہ یعقوب بن اسحاق العسقلانی ہے.
١. اس راوی کے متعلق امام ذہبی فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹا راوی ہے.
يعقوب بن إسحاق بن إبراهيم بن يزيد بن حجر القرشي أبوالحسن العسقلاني، وهو كذَّاب، كما وصفه بذلك الذهبي. (ميزان الاعتدال:5/176، ت/9260(
٢. حافظ ابن حجر نے بھی اس کو جھوٹا قرار دیا ہے.
وأورد له الحافظ رحمه الله في اللسان (ت/8631) حديثاً، فقال بعده: وهذا من أباطيل يعقوب، إشارة منه أنه من وَضْعِهِ…والله أعلم.
٣. لسان المیزان میں لکھا ہے کہ یہ راوی جھوٹا ہے.
يعقوب بن إسحاق (بن إبراهيم بن يزيد بن حجر بن محمد المعروف بابن حجر) العسقلاني: كذاب.
خلاصہ کلام
یہ واقعہ کسی صحیح سند سے منقول نہیں ہے اور اکابر محدثین نے بھی اس کی صحت کا انکار کیا ہے، لہذا اس واقعہ کو بیان کرنا یا اس کو پھیلانا درست نہیں ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
واہ