عربی میں ہی کلام کرنا
سوال: ایک روایت سنی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص عربی جانتا ہو وہ دوسری زبان میں بات نہ کرے کہ اس سے نفاق پیدا ہوتا ہے… کیا یہ بات درست ہے؟ (سائل: ارمان رحمانی-عمان)
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مستدرک حاکم میں موجود ہے
“من كان يحسن العربية فلا يتكلم بالأعجمية؛ فإنّه يورث النفاق”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کو امام حاکم نے صحیح الاسناد قرار دیا ہے لیکن امام ذہبی نے ان کا استدراک کیا اور اس روایت کو انتہائی ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی ہے عمر بن ھارون بن زید الثقفی مولاھم البلخی.
اس راوی کے بارے میں محدثین کرام کے اقوال:
١. یحیی ابن معین کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا راوی ہے.
وقال علي بن الحسين بن الجنيد: سمعت يحيى بن معين يقول: عمر بن هارون كذاب، قدم مكة وقد مات جعفر بن محمد، فحدث عنه
٢. امام عقیلی کہتے ہیں کہ اس کی ایک روایت جریر کے سامنے بیان کی گئی تو انہوں نے کہا کہ اس سے کہو کہ تم نے جھوٹ بولا ہے.
قال عقيلي: حدثنا محمد بن زكريا البلخي، حدثنا قتيبة، قلت لجرير: حدثنا عمر بن هارون عن القاسم بن مبرور، قال: نزل جبريل على النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن كاتبك هذا أمين (يعني معاوية) فقال لي جرير: اذهب إليه، فقل له: كذبت.
٣. علی بن حسین بن حبان کہتے ہیں کہ میرے دادا نے لکھا ہے کہ ابوزکریا نے کہا کہ عمر بن ہارون جھوٹا خبیث ہے.
وقال علي بن الحسين بن حبان: وجدت بخط جدي: قال أبوزكريا: عمر بن هارون البلخي كذاب خبيث ليس حديثه بشيء.
٤. علی بن المدینی نے اس کو ضعیف جدا کہا.
وسئل عنه علي بن المديني، فضعفه جدا.
٥. امام نسائی کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے.
وقال صالح جزرة والنسائي: متروك الحديث.
٦. ابونعیم کہتے ہیں کہ یہ منکر روایات نقل کرنے والا کمزور راوی ہے.
وقال أبونعيم: لا شيء، حدث عن ابن جريج، والأوزاعي، وشعبة، بالمناكير. (تهذيب الكمال للمزي)
دوسری روایت:
اسی مضمون کے قریب دوسری روایت ہے جس کو مستدرک حاکم میں نقل کیا گیا ہے کہ جو شخص فارسی میں کلام کرتا ہے اس کی خباثت بڑھتی ہے اور اس کی مروت ختم ہوتی ہے. حافظ ابن حجر فتح الباری میں اس روایت کو نقل کرکے کہتے ہیں کہ اس کی سند بلکل بیکار ہے.
قال الحافظ في الفتح (184/6): وكحديث من تكلم بالفارسية زادت في خبثه ونقصت من مروءته أخرجه الحاكم في مستدركه وسنده واه.
وأخرج فيه أيضا عن عمر رفعه من أحسن العربية فلا يتكلمن بالفارسية فإنه يورث النفاق… الحديث… وسنده واه.
دوسری روایت کا راوی طلحہ بن زید القرشی اس راوی کے بارے میں محدثین کرام کے اقوال:
١. احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ یہ منکر روایات نقل کرتا ہے.
قال أبوبكر المروزي: سألت أحمد بن حنبل عن طلحة بن زيد القرشي فقال: ليس بذاك، قد حدث بأحاديث مناكير.
٢. ایک اور جگہ فرمایا کہ یہ من گھڑت روایات نقل کرتا ہے.
وقال في موضع آخر: كان طلحة بن زيد، نزل على شعبة ليس بشيء، كان يضع الحديث.
٣. ابن المدینی کہتے ہیں کہ یہ جھوٹی روایت بناتا تھا.
وقال عبدالله بن علي بن المديني عن أبيه: كان يضع الحديث.
٤. امام ابوحاتم، بخاری اور نسائی نے اس کو منکر روایات نقل کرنے والا کہا ہے.
وقال أبوحاتم: منكر الحديث، ضعيف الحديث، لا يعجبني حديثه.
وقال البخاري وغير واحد: منكر الحديث.
وقال النسائي: منكر الحديث، ليس بثقة .
٥. ابن حبان کہتے ہیں کہ اس کی روایات قابل حجت نہیں.
وقال ابن حبان: منكر الحديث، لا يحل الاحتجاج بخبره.
عربی کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اقوال:
١. حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ عربی سیکھا کرو کیونکہ یہ تمہارے دین کا حصہ ہے اور میراث کا علم سیکھا کرو کہ یہ تمہارے دین کا حصہ ہے.
قال عمـر بن الخطاب: تعلموا العربية فإنَّها من دينكم، وتعلموا الفرائض فإنَّها من دينكم. (شعب الايمان:2/257)
(ضعيف لأن فيه حيان بن جبلة وليث بن أبي سليم ضعيفان)
٢. حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ عربی سیکھو کہ اس سے مروت میں اضافہ ہوتا ہے.
تعلموا العربية فإنها تزيد في المروة. (شعب الايمان:1675)
(منقطع وفيه جهالة)
☆ یہ روایات اگرچہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں لیکن ان سے عربی کی اہمیت کا اندازہ ضرور ہوتا ہے.
امام شافعی رحمه اللہ عربی زبان جاننے والے کیلئے عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے.
وكره الشافعي لمن يعرف العربية أن يتكلَّم بغيرها.
خلاصہ کلام
بےشک عربی زبان کی اہمیت تو مُسَلَّم (یعنی تسلیم شدہ) ہے کیونکہ اس زبان کو اللہ تعالی نے اپنی عظیم الشان کتاب کیلئے منتخب فرمایا، لیکن عربی زبان جانتے ہوئے دوسری زبان میں بات کرنے سے نفاق یا برائی کا ہونا یہ بات درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ