معطر پسینے کی خوشبو
سوال: ایک روایت سنی ہے کہ ایک شخص نے آپ علیہ السلام سے اپنی بیٹی کی شادی کیلئے مدد چاہی تو آپ علیہ السلام نے اس کو ایک شیشی میں اپنا پسینہ دیا جس سے پورا مدینہ معطر ہوگیا….. کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
آپ علیہ السلام کا پسینہ مبارک نہایت ہی پاکیزہ اور مشک و عنبر کی خوشبو سے زیادہ دلاویز معطر تھا جس کے متعلق صحیح روایات بھی موجود ہیں، لیکن سوال میں مذکور روایت سند کے لحاظ سے کافی کمزور ہے.
وروى أبويعلى والطبراني قصة الذي استعان بالنبي صلى الله عليه وسلم على تجهيز ابنته، فلم يكن عنده شيء، فاستدعاه بقارورة، فسلت له فيها من عرقه، وقال: “مرها فلتطيب به”، فكانت إذا تطيبت به شمّ أهل المدينة ذلك الطيب فسمّوا: بيت المطيبين. (رواه الطبراني في معجمه الصغير)
اس واقعے میں مزید کچھ الفاظ کا اضافہ دیگر کتب میں موجود ہے.
ولفظ أبي يعلى والطبراني عن أبي هريرة: جاء رجل فقال: يارسول الله صلى الله عليه وسلم! إني زوَّجت ابنتي، وأنا أحب أن تعينني بشيء، قال: “ما عندي شيء، ولكن إذا كان غدًا فأتني بقارورة واسعة الرأس، وعود شجرة، وآية ما بيني وبينك أن أجيف ناحية الباب”، فلمَّا كان من الغد أتاه بذلك؛ فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يسلت العرق عن ذراعيه، حتى امتلأت القارورة، فقال: “خذها وأمر ابنتك أن تغمس هذا العود في القارورة فتطيب به”، “فكانت إذا تطيبت به شمّ أهل المدينة” كلهم “ذلك الطيب”، وإن بعدوا عن دارها، “فسمّوا: بيت المطيبين”.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
امام ذہبی نے اس روایت کو منکر جدا قرار دیا ہے لیکن اس کے موضوع ہونے کا انکار کیا ہے.
وقال الذهبي في الميزان بعد أن أورد الحديث: هذا منكر جدا، وذلك لا يقتضي الحكم بوضعه.
اس روایت کے ضعف کا سبب:
اس روایت کو نقل کرنے والے تمام محدثین اس روایت کو حلبس بن محمد الکلابی یا حلبس بن غالب سے نقل کرتے ہیں جن کو محدثین نے منکر الحدیث قرار دیا ہے.
حلبس بن محمد الكلابي وأظن أنه حلبس بن غالب يكنى أباغالب بصري منكر الحديث عن الثقات.
میزان الاعتدال میں حلبس کو متروک قرار دیا ہے.
حلبس الكلابي متروك الحديث. (انظر لسان الميزان:٢/٣٤٤، رقم الترجمة:1400)
ابن عدی رحمه اللہ نے اس کی یہی روایت نقل کرکے فرمایا کہ یہ منکر روایت سفیان سے نقل کی ہے.
قال ابن عدي: وهذا حديث منكر عن سفيان والذي قال لنا أخبرنا الناقد عن الثوري مغيرة عن إبراهيم أصوب من الذي قال لنا الرسعني عن الثوري عن حماد عن إبراهيم أخبرنا أبويعلى ثنا بشر بن سيحان ثنا حلبس بن غالب ثنا سفيان الثوري عن أبي الزناد عن الأعرج عن أبي هريرة قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يارسول الله! إني زوجت ابنتي وأنا أحب أن تعينني بشيء، قال: ما عندي شيء ولكن إذا كان غدا فأتني بقارورة واسعة الرأس وعود شجرة قال: فجعل يسلق العرق من ذراعيه حتى امتلأت القارورة؛ قال: خذها وأمر ابنتك أن تغمس هذا العود في القارورة فتطيب به قال: فكانت إذا تطيبت شم أهل المدينة رائحة ذلك الطيب؛ قال: فسموا بيوت المطيبين.
آپ علیہ السلام کے مبارک پسینے کی خوشبو سے متعلق درست روایات:
١. صحیحین کی روایت ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا آپ علیہ السلام کے پسینے کو جمع کرکے ایک شیشی میں رکھتی تھیں، اور انس رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال کے وقت اس خوشبو کے لگانے کی وصیت کی تھی.
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا محمد بن عبدالله الأنصاري قال: حدثني أبي عن ثمامة، عن أنس أن أم سليم كانت تبسط للنبي صلی اللہ علیه وسلم نطعاً فيقيل عندها على ذلك النطع قال: فإذا نام النبي صلی اللہ علیه وسلم أخذت من عرقه وشعره فجمعته في قارورة ثم جمعته في سك، قال: فلما حضر أنس بن مالك الوفاة أوصى أن يجعل في حنوطه من ذلك السك، قال: فجعل في حنوطه.
٢. ایک صحابی کہتے ہیں کہ لوگ آپ علیہ السلام کے دست مبارک کو اپنے چہروں پر پھیرتے تھے، میں نے بھی آپ کا ہاتھ اپنے چہرے پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا.
حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ مَنْصُورٍ أَبُوعَلِيٍّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ الأَعْوَرُ، بِالْمَصِّيصَةِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَاجُحَيْفَةَ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالهَاجِرَةِ إِلَى البَطْحَاءِ، فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَالعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ، قَالَ شُعْبَةُ: وَزَادَ فِيهِ عَوْنٌ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: كَانَ يَمُرُّ مِنْ وَرَائِهَا المَرْأَةُ، وَقَامَ النَّاسُ فَجَعَلُوا يَأْخُذُونَ يَدَيْهِ فَيَمْسَحُونَ بِهَا وُجُوهَهُمْ، قَالَ: فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ فَوَضَعْتُهَا عَلَى وَجْهِي فَإِذَا هِيَ أَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ وَأَطْيَبُ رَائِحَةً مِنَ المِسْكِ. (صحيح البخاري، كتاب المناقب، باب صفة النبي صلى الله عليه وسلم، حديث رقم:3392)
٣. صحیح مسلم کی روایت ہے کہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا تو آپ کے ہاتھ کی ٹھنڈک اور خوشبو کو میں نے محسوس کیا گویا ابھی عطر کی تھیلی سے نکلے ہیں.
وَفِي حَدِيثِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ عِنْدَ مُسْلِمٍ فِي أَثْنَاءِ حَدِيثٍ قَالَ: فَمَسَحَ صَدْرِي فَوَجَدْتُ لِيَدِهِ بَرْدًا أَوْ رِيحًا كَأَنَّمَا أَخْرَجَهَا مِنْ جُونَةِ عَطَّارٍ.
٤. وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ علیہ السلام سے مصافحہ کرتا تھا اور بعد میں آپ کے دست مبارک کی خوشبو محسوس کرتا تھا گویا کہ وہ خوشبو مشک کی خوشبو سے زیادہ ہو.
وَفِي حَدِيثِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ عِنْدَ الطَّبَرَانِيِّ وَالْبَيْهَقِيِّ: لَقَدْ كُنْتُ أُصَافِحُ رَسُول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ يَمَسُّ جِلْدِي جِلْدَهُ فَأَتَعَرَّفُهُ بَعْدُ فِي يَدِي وَإِنَّهُ لَأَطْيَبَ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْكِ.
٥. مسند أحمد کی روایت ہے کہ آپ علیہ السلام کی خدمت میں پانی کا ایک ڈول لایا گیا، جب آپ نے اس میں سے پیا اور پھر اسی ڈول میں اپنے دہن مبارک کا پانی ڈالا اور وہ ڈول کنویں میں ڈالا تو اس کنویں سے مشک کی طرح خوشبو پھوٹ پڑی.
وَفِي حَدِيثِهِ عِنْدَ أَحْمَدَ أتی رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَلْوٍ مِنْ مَاءٍ فَشَرِبَ مِنْهُ ثُمَّ مَجَّ فِي الدَّلْوِ ثُمَّ فِي الْبِئْرِ فَفَاحَ مِنْهُ مِثْلُ رِيحِ الْمِسْكِ.
٦. صحابہ کرام فرماتے ہیں کہ جب آپ علیہ السلام کسی راستے سے گزرتے تھے تو آپ کی خوشبو اس راستے میں بس جاتی تھی جس سے معلوم ہوتا کہ آپ یہاں سے گزرے ہیں
وروى أبو يعلى والبزار بسند صحيح أنه كان إذا مر من طريق وجدوا منه رائحة الطيب ، وقالوا : مر رسول الله – صلى الله عليه وسلم – من هذا الطريق
خلاصہ کلام
آپ علیہ السلام کے معطر جسد أطہر کی نفیس خوشبو کا ثبوت تو صحیح روایات سے ثابت ہے، لیکن سوال میں مذکور روایت چونکہ سند کے لحاظ سے کافی کمزور ہے لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ