تنبیہ نمبر166

عورتیں غالب اور مرد مغلوب

سوال :کیا مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ یا اسکے ہم معنی کوئی مرفوع یا موقوف حدیث موجود ہے؟
اس روایت کو مولانا طارق جمیل صاحب کے بیانات میں کئی بار سنا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “کریم شوہر پر بیوی غالب ہوتی ہے اور کمینہ شوہر بیوی پر غالب ہوتا ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ مغلوب کریم بنوں نہ کہ غالب کمینہ”.
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے۔) سائل: محمد طفیل، کراچی)
الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور روایت مختلف الفاظ کے ساتھ مشہور کی گئی ہے:

١ .پہلی روایت:

آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہترین ہو اور میں اپنے گھر والوں کیلئے بہترین ہوں، اور کریم شخص….الی آخرہ

عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “خيركم خيركم لأهله، وأنا خيركم لأهلي، ما أكرم النساء إلا كريم، ولا أهانهن إلا لئيم”. (رواه ابن عساكر في “تاريخ دمشق”: 13/313(
وعنه ابن أخيه في “الأربعين في مناقب أمهات المؤمنين” (109(
ابن عساکر کی سند کے تین راویوں پر محدثین کا کلام کافی سخت ہے:
١ . داود بن الحصین:

یہ راوی ویسے تو ثقہ ہے لیکن جب عکرمہ سے روایت نقل کرتا ہے تو اس کو محدثین نے منکر قرار دیا ہے.

داود بن الحصين ثقة إلا في عكرمة. كما قال الحافظ في “التقريب”، ومستنده قول ابن المديني: ما رواه عن عكرمة فمنكر. وكذا قال أبوداود.
٢ .ابراہیم الأسلمی:

اس راوی کو بڑے محدثین نے جھوٹا قرار دیا ہے.

إبراهيم الأسلمي: كذاب، كما قال يحيى القطان وابن معين وابن المديني.
وروى أبوزرعة في “تاريخ دمشق” (34/1) بسند صحيح عن يحيى بن سعيد قال: لم يُترك إبراهيم بن أبي يحيى للقدر، وإنما للكذب.
وقال ابن حبان (1/92): كان يرى القدر ويذهب إلى كلام جهم، ويكذب مع ذلك في الحديث.
٣ . ابوعبدالغنی الأزدی:

اس راوی پر بھی جھوٹی روایات نقل کرنے کا الزام ہے، بلکہ ابونعیم کہتے ہیں کہ یہ مالک سے جھوٹی روایات نقل کرتا ہے.

أبوعبدالغني الأزدي: متهم بالوضع، وفي ترجمته ساق ابن عساكر هذا الحديث، وقال فيها: “وكان ضعيفا”. ثم روى عن أبي نعيم أنه قال: حدث عن مالك أحاديث موضوعة. وكذا قال الحاكم، ثم تعقب ابن عساكر أبانعيم بقوله: “ولا أعلم روى عن مالك ولا أدركه”.
قلت (القائل هو الشيخ الألباني رحمه الله): وهو إنما يروي عن مالك بواسطة عبدالرزاق، وقد ساق له الدارقطني من هذا الوجه حديثا وقال: “باطل، وضعه أبوعبدالغني على عبدالرزاق” وكذا رواه ابن عساكر في ترجمته، لكن قد ساق له ابن حبان (1/235) حديثا آخر، صرح فيه بقوله: “حدثنا مالك” فهو من أكاذيبه عليه. وقال ابن حبان: يضع الحديث على الثقات، لا تحل الرواية عنه بحال… انتهى باختصار.

اس سب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ روایت من گھڑت ہے.

● اس روایت کا صحیح حصہ:
وعَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ الله صلی اللہ علیه وسلم: “خیرکم خیرکم لأهله وأنا خيركم لأهلي”. رواه الترمذى

اس روایت کا یہ حصہ صحیح ہے بقیہ من گھڑت ہے.

٢ .دوسری روایت:

یہ بغیر زیادتی کے ہے اور اس کا حکم بھی یہی ہے کہ یہ روایت من گھڑت ہے.

ما أكرم النساء إلا كريم، ولا أهانهن إلا لئيم.
٣ . تیسری روایت:

بےشک عورت مرد کا حصہ ہے، اور ان کی عزت شریف شخص کرتا ہے اور کمینہ ان پر غالب آتا ہے.

“إنما النساء شقائق الرجال، ما أكرمهن إلا كريم وما أهانهن إلا لئيم”.

یہ مکمل روایت بھی من گھڑت ہے.

البتہ اس روایت کا پہلا حصہ “إنما النساء شقائق الرجال” درست ہے.

جزؤه الأول (انما النساء شقائق الرجال) جاء في أحاديث أسانيدها محتملة التحسين أو التصحيح.
فما رواه الإمام أحمد، وأبوداود، والترمذي من حديث عبدالله بن عمر، عَن أخيه عبيدالله، عَن القاسم، عَن عائشة، قالت: سئل رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلم.
٤. چوتھی روایت:

اس میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ “میں چاہتا ہوں کہ مغلوب کریم بنوں نہ کہ غالب کمینہ”.

أكرموا النساء، فوالله ما أكرمهن إلا كريم، ولا أهانهن إلا لئيم، يغلبن كل كريم، ويغلبهن لئيم.
وأنا أحب أن أكون كريماً مغلوباً من أن أكون لئيماً غالباً.

یہ روایت بھی اسی من گھڑت روایت کا حصہ ہے.

اس مضمون کا ثبوت:

ابن ماجہ باب اقامہ الصلاہ والسنہ فیھا 948 اور مسند احمد 25984 پر اس قدر ثابت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ھن اغلب یہ عورتیں غالب ہیں (اس روایت پر اگرچہ کلام ہے )

اسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف اس قول کی بعض حضرات نے نسبت کی ہے

خلاصہ کلام

یہ مضمون کہ کریم شوہر اپنی بیوی سے مغلوب ہو کر رہتا ہے اور کمینہ شوہر اس پر خود غالب رہتا ہے یہ بات کسی بھی مستند (صحیح یا ضعیف) روایت سے ثابت نہیں بلکہ من گھڑت روایات سے ثابت ہے، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں