مکڑی کے جالے سے بےبرکتی
سوال: مندرجہ ذیل روایت کی تحقیق مطلوب ہے:
شیطان تمہارے گھروں میں اس جگہ رہتا ہے جہاں مکڑی جالے تنتی ہے، اپنے گھروں میں مکڑی کے جالے مت رہنے دیا کرو کیونکہ اِس سے گھر میں غربت و پریشانیاں آتی ہیں… کیا یہ روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ اسلام نے صفائی کا باقاعدہ حکم دیا ہے اور نظافت میں سے یہ بھی ہے کہ اپنے گھر کو ہر قسم کے حشرات سے اور ان کے ٹھکانوں سے پاک رکھا جائے، اسی میں سے مکڑی کے جالے بھی ہیں اور مکڑی کے جالے ایک بار جب بننے شروع ہوجاتے ہیں تو پھر بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں، لہذا اس کی صفائی کا خاص خیال رکھا جائے، لیکن اس متعلق کسی بھی مستند (صحیح یا ضعیف) روایت سے کوئی مستند بات معلوم نہیں ہوتی، البتہ کچھ انتہائی کمزور ناقابل اعتبار روایات منقول ہیں:
ثعلبی نے اپنی تفسیر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ اپنے گھروں کو مکڑی کے جالوں سے صاف رکھو کیونکہ یہ جالے فقر کا سبب بنتے ہیں.
رواه الثعلبي في تفسيره (7/280) من طريق عبدالله بن ميمون القداح، قال: سمعت جعفر بن محمد يقول: سمعت أبي يقول: قال علي بن أبي طالب: طهّروا بيوتكم من نسيج العنكبوت، فإنّ تركه في البيوت يورث الفقر.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند انتہائی کمزور ہے کیونکہ اس میں ایک راوی عبداللہ بن میمون القداح ہے.
وهذا إسناد واه جدا، لأن عبدالله بن ميمون القداح متروك متهم بالكذب.
اس راوی کے بارے میں محدثین کے اقوال:
١. امام بخاری کہتے ہیں كہ اس کی روایات کسی قابل نہیں.
قال البخاري: ذاهب الحديث.
٢. امام ابوزرعہ کہتے ہیں کہ اس کی روایات بیکار قسم کی ہیں.
وقال أبوزرعة: واهي الحديث.
٣. امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ شخص منکر روایات نقل کرتا ہے.
وقال الترمذي: منكر الحديث. [تهذيب التهذيب (6/44-45)].
٤. امام ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ شخص سند میں الٹ پھیر کرتا ہے اسلئے اس اکیلے کی روایات ناقابل اعتبار ہیں.
عبدالله بن ميمون القداح من أهل مكة. يروى عن جعفر بن محمد وأهل العراق والحجاز المقلوبات. لا يجوز الاحتجاج به إذا انفرد. (کتاب المجروحین لابن حبان، ج: 2، ص:21)
٥. امام ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
وقال أبوحاتم: متروك. [التاريخ الكبير (206/5) الميزان 512/2)].
خلاصہ کلام
شریعتِ محمدیہ نے فقر کے أسباب میں سے سب سے بڑا سبب اللہ کی نافرمانی کو قرار دیا ہے، باقی کسی انسان یا جاندار کی وجہ سے فقر کا آنا یہ محض عوام میں مشہور خرافات ہیں جن کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا اور انکو پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ