تنبیہ نمبر184

ایک عجیب دعوت کی داستان

سوال: ایک واقعہ بہت ہی مشہور ہے کہ ایک دن حضرت عثمان رضہ اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی دعوت کی جب نبی کریم ﷺ حضرت عثمان رضہ اللہ عنہ کے گھر کی طرف تشریف لے کر جارہے تھے توحضرت عثمان رضہ اللہ عنہ آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اور آپ ﷺ کے قدموں کی تعداد گن رہے تھے، سرکارِ دوعالم ﷺ نے جب پیچھے مُڑ کر دیکھا تو مسکرا کر پوچھا اے عثمان! یہ کیا کررہے ہو؟ حضرت عثمان رضہ اللہ عنہ نے جواب دیا: یا رسول اللہ ﷺ ! میں آپ ﷺ کے قدم گن رہا ہوں تا کہ میں اتنی غلام آزاد کروں۔ دعوت ختم ہونے کے بعد حضرت عثمان رضہ اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور اتنے ہی غلام ازاد کیئے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اس دعوت سے متاثر ہوئے اور گھر آکر حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے اس دعوت کا ذکر کیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: آگر اپ چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے، آپ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم کو بلا لیجئے اور میں دعوت کے لئے کچھ پکا لوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وضو کیااور اللہ تعالی کے حضور سر بسجود ہوگئیں اور دعا مانگنے لگیں: اے اللہ ! تیری بندی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے تیرے حبیب محمد ﷺ اور ان کے اصحاب کی دعوت کی ہے، تیری بندی کا سرف اور صرف تُجھ پر ہی بھروسہ ہے، لہذا اے میرے مالک و خالق ! آج تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی لاج تلھ لے اور اس دعوت کے عالم ِ غیب سے کھانوں کا انتظام فرما، سیدہ رضی اللہ عنہا نے دعا مانگ کر ہانڈیوں کو چولہے پر رکھ دیا، اللہ کے فضل و کرم سے تمام ہانڈیاں رنگ برنگ کے کھانوں سے بھری پڑی تھیں۔ جب سرکارِ دو عالم ﷺ اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ تشریف لائے تو حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا نے ہانڈیوں سے ڈھکن اُٹھار کر کھانا ڈاپنا شروع کیا، اصحابِ رسول ﷺ کھانے کی خوشبو سے حیران رہ گئے، جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کھانا کھایا تو کھانوں کی لذت نے مزید حیران کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حیران دیکھ کر فرمایا: حیران ہو رہے ہو، تمھیں معلوم ہے یہ کھانا کہاں سے آیا ہے؟ تمام صحابہ نے کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جواب دیا: اللہ اور رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے فرمایا: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے یہ کھانا ہم لوگوں کے لیئے جنت سے منگوا کر دعوت کی ہے۔ اس کے بعد حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا پھر سر بسجود ہوگئیں اور اس طرح دعا مانگنے لگیں: اے اللہ میرے مالک! حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تیرے محبوب کے ہر ہر قدم کے بدلے ایک غلام آزاد فرمایا، فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس اتنی استطاعت نہیں کہ وہ غلام آزاد کرے۔ اے میرے رب ! تو نے پہلے بھی میری لاج رکھی اور جنت سے کھانا بھیج دیا، اب تیرے محبوب جتنے قدم چل کر میرے گھر آئے اتبے ہی سرکار کے امتی جہنم کی آگ سے آزاد فرما دے۔
اِدھر سیدہ فاطمہ الزہراء رضہ اللہ عنہا اس دعا سے فارغ ہوئیں اور اُدھر جبرئیلِ امین علیہ السلام وحی لے کر بارگاہِ خیر الانام ﷺ میں حاضر ہوگئے اور بشارت سنانے لگے: یارسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالی نے آپ کے ہر قدم کے بدلے ایک ہزار گناہگار امتیوں کو بخش دیا اور جہنم سے آزادی عطا کردی ہے۔
اس واقعے کی تحقیق مطلوب ہے..
الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور واقعہ باوجود تلاش بسیار کے کسی بھی مستند صحیح یا ضعیف یا من گھڑت روایات میں کہیں بھی نہ مل سکا جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ بہت بعد کی من گھڑت ہے، عموما شیعہ اپنی کتابوں اور وعظوں میں اہل بیت کی فضیلت میں ایسی روایات نقل کرتے رہتے ہیں جن کا وجود اور ثبوت کہیں بھی منقول نہیں ہوتا.

خلاصہ کلام

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کے فضائل اس قدر تفصیل سے صحیح روایات سے ثابت ہیں کہ اس طرح کے من گھڑت واقعات کی ہرگز ضرورت نہیں، لہذا اس واقعے کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا اور اسکو پھیلانا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں