حُفَّاظ اور حافظات کے لئے پیارے نبی ﷺ کا بیش قیمت تحفہ
سوال: مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے کہ اسی دوران علی رضی الله عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ کر عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، یہ قرآن تو میرے سینے سے نکلتا جا رہا ہے، میں اسے محفوظ نہیں رکھ پارہا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوالحسن! کیا میں تمہیں ایسے کلمے نہ سکھا دوں کہ جن کے ذریعہ اللہ تمہیں بھی فائدہ دے اور انہیں بھی فائدہ پہنچے جنہیں تم یہ کلمے سکھاؤ؟ اور جو تم سیکھو وہ تمہارے سینے میں محفوظ رہے“، انہوں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ہمیں ضرور سکھایئے، آپ نے فرمایا: ”جب جمعہ کی رات ہو اور رات کے آخری تہائی حصے میں تم کھڑے ہو سکتے ہو تو اٹھ کر اس وقت عبادت کرو کیونکہ رات کے تیسرے پہر کا وقت ایسا وقت ہوتا ہے جس میں فرشتے بھی موجود ہوتے ہیں، اور دعا اس وقت مقبول ہوتی ہے، میرے بھائی یعقوب علیہ السلام نے بھی اپنے بیٹوں سے کہا تھا: سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُم یعنی میں تمہارے لئے اپنے رب سے مغفرت طلب کرونگا، آنے والی جمعہ کی رات میں، اگر اس وقت نہ اٹھ سکو تو درمیان پہر میں اٹھ جاؤ، اور اگر درمیانی حصے (پہر) میں بھی نہ اٹھ سکو تو پہلے پہر ہی میں اٹھ جاؤ اور چار رکعت نماز پڑھو، پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ اور سورۃ یٰسین پڑھو، دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ اور حم دخان اور تیسری رکعت میں سورۃ فاتحہ اور الم تنزیل السجدہ اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ اور سورة الملك (تبارك الذی) پڑھو، پھر جب تشہد سے فارغ ہوجاؤ تو اللہ کی حمد بیان کرو اور اچھے طریقے سے اللہ کی ثناء بیان کرو، اور مجھ پر صلاۃ (درود) بھیجو، اور اچھے طریقے سے بھیجو اور سارے نبیوں پر صلاۃ (درود) بھیجو اور مؤمن مردوں اور مؤمنہ عورتوں کے لیے مغفرت طلب کرو، اور ان مؤمن بھائیوں کے لئے بھی مغفرت کی دعا کرو، جو تم سے پہلے اس دنیا سے جا چکے ہیں، پھر یہ سب کر چکنے کے بعد یہ دعا پڑھو:
اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي بِتَرْكِ الْمَعَاصِي أَبَدًا مَا أَبْقَيْتَنِي، وَارْحَمْنِي أَنْ أَتَكَلَّفَ مَا لَا يَعْنِينِي، وَارْزُقْنِي حُسْنَ النَّظَرِ فِيمَا يُرْضِيكَ عَنِّي، اللَّهُمَّ بَدِيعَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِي لَا تُرَامُ، أَسْأَلُكَ يَا أَللهُ يَا رَحْمَنُ بِجَلَالِكَ، وَنُورِ وَجْهِكَ أَنْ تُلْزِمَ قَلْبِي حِفْظَ كِتَابِكَ كَمَا عَلَّمْتَنِي، وَارْزُقْنِي أَنْ أَتْلُوَهُ عَلَى النَّحْوِ الَّذِي يُرْضِيكَ عَنِّيَ، اللَّهُمَّ بَدِيعَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِي لَا تُرَامُ، أَسْأَلُكَ يَا أَللهُ يَا رَحْمَنُ بِجَلَالِكَ وَنُورِ وَجْهِكَ أَنْ تُنَوِّرَ بِكِتَابِكَ بَصَرِي، وَأَنْ تُطْلِقَ بِهِ لِسَانِي، وَأَنْ تُفَرِّجَ بِهِ عَنْ قَلْبِي، وَأَنْ تَشْرَحَ بِهِ صَدْرِي، وَأَنْ تَغْسِلَ بِهِ بَدَنِي، فَإنَّهُ لَا يُعِينُنِي عَلَى الْحَقِّ غَيْرُكَ، وَلَا يُؤْتِيهِ إِلَّا أَنْتَ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ.
اے ابوالحسن! تین جمعہ، پانچ جمعہ یا سات جمعہ تک ایسا ہی کرو، اللہ کے حکم سے دعا قبول کر لی جائےگی، اور قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے، اس کو پڑھ کر کوئی مومن کبھی محروم نہ رہےگا، عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! علی رضی الله عنہ پانچ یا سات جمعہ ٹھہرے ہوں گے کہ وہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ایسی ہی مجلس میں حاضر ہوئے اور آکر عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس سے پہلے چار آیتیں یا ان جیسی دو ایک آیتیں کم و بیش یاد کر پاتا تھا، اور جب انہیں دل میں آپ ہی آپ دہراتا تھا تو وہ بھول جاتی تھیں، اور اب یہ حال ہے کہ میں چالیس آیتیں سیکھتا ہوں یا چالیس سے دو چار کم و بیش، پھر جب میں انہیں اپنے آپ دہراتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ کتاب اللہ میری آنکھوں کے سامنے کھلی ہوئی رکھی ہے (اور میں روانی سے پڑھتا چلا جاتا ہوں) اور ایسے ہی میں اس سے پہلے حدیث سنا کرتا تھا، پھر جب میں اسے دہراتا تو وہ دماغ سے نکل جاتی تھی، لیکن آج میرا حال یہ ہے کہ میں حدیثیں سنتا ہوں پھر جب میں انہیں بیان کرتا ہوں تو ان میں سے ایک حرف بھی کم نہیں کرتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ارشاد فرمایا: ”قسم ہے رب کعبہ کی! اے ابوالحسن تم مؤمن ہو“۔ (جامع ترمذی#3570)
کیا یہ پوری روایت درست ہے؟ ��
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ متعدد کتب حدیث میں موجود ہے، مثلا: ترمذی ،مستدرک حاکم وغیرہ.
اس روایت کی سندیں ہیں:
عن سليمان بن عبد الرحمن الدمشقي (صدوق يخطئ) حدثنا الوليد بن مسلم (ثقة) حدثنا ابن جريج (ثقة) عن عطاء بن أبي رباح (ثقة) وعكرمة مولى ابن عباس (ثقة) عن ابن عباس. الحديث.
عن محمد بن الحسن بن محمد المقري النقاش ثنا الفضل بن محمد العطار ثنا هشام بن عمار (ثقة اختلط في آخره) حدثنا الوليد بن مسلم عن ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس.
عن الحسين بن اسحاق التستري ثنا هشام بن عمار (ثقة اختلط) ثنا محمد بن ابراهيم القرشي (متهم) حدثني أبو صالح (هو باذان مولى أم هانئ، ضعيف) وعكرمة (ثقة) عن ابن عباس قال قال علي بن أبي طالب. الحديث.
١. پہلی سند:
الطريق الأولى: الوليد بن مسلم، قال: حدثنا ابن جريج، عن عطاء بن أبي رباح، وعكرمة مولى ابن عباس، عن ابن عباس به.
– رواه الترمذي (حديث رقم:3570)،
– والحاكم في “المستدرك” (1/461)،
– والبيهقي في “الأسماء والصفات” (2/108)،
وغیرہم
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں ایک راوی ولید بن مسلم ہے، اس راوی پر تدلیس التسویہ کرنے کی وجہ سے کافی کلام ہے.
(تدلیس التسویہ کا مطلب یہ ہے کہ راوی اپنے استاد کے ضعیف استاد کو سند میں سے حذف کردے).
١. ابن جوزی کہتے ہیں کہ ولید اوزاعی کی سند میں تدلیس التسویہ کرتے تھے.
قال ابن الجوزي رحمه الله: أما الوليد فقال علماء النقل: كان يروى عن الأوزاعي أحاديث، هي عند الأوزاعي عن شيوخ ضعفاء، عن شيوخ قد أدركهم الأوزاعي، مثل نافع والزهري، فيسقط أسماء الضعفاء، ويجعلها عن الأوزاعي عنهم. (الموضوعات:2/140).
٢. امام ذہبی کہتے ہیں کہ ولید کے منکر روایات میں سے یہ حفظ کی دعا والی روایت ہے.
وقال الحافظ الذهبي رحمه الله: أنكر ما له (يعني الوليد بن مسلم) حديث رواه… فذكر الحديث السابق.
٣. آگے فرماتے ہیں کہ یہ روایت میرے نزدیک من گھڑت ہے.
ثم قال: هذا عندي موضوع. (سير أعلام النبلاء:9/217-218).
٤. امام ذہبی آگے لکھتے ہیں کہ باوجود اس سند کے ستھرے ہونے کے یہ روایت الفاظ کے اعتبار سے منکر ہے، اور میرا دل اس سے مطمئن نہیں.
وقال أيضا رحمه الله: وهو مع نظافة سنده حديث منكر جدا، في نفسي منه شيء.. فالله أعلم. (ميزان الاعتدال:2/213).
٥. مزید لکھتے ہیں کہ یہ روایت منکر اور شاذ ہے، اور مجھے ڈر ہے کہ یہ روایت من گھڑت ہو، لیکن اس کے سند کی عمدگی نے مجھے حیران کردیا ہے.
وقال أيضا رحمه الله: هذا حديث منكر شاذ، أخاف لا يكون موضوعا، وقد حيرني والله جودة سنده. (تلخيص المستدرك: 1/316)
٢. دوسری سند:
الطريق الثانية: الحسين بن إسحاق التسترى، حدثنا هشام بن عمار، حدثنا محمد بن إبراهيم القرشي، حدثنا أبوصالح، عن عكرمة، عن ابن عباس. (رواه الطبراني، كما أسنده إليه ابن الجوزي في الموضوعات).
١. علامہ ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں، کیونکہ اس میں ایک راوی محمد بن ابراہیم پر بھی جرح ہے اور اسحاق بن نجیح متروک راوی ہے.
قال ابن الجوزي رحمه الله: هذا حديث لا يصح، ومحمد بن إبراهيم مجروح، وأبوصالح لا نعلمه إلا إسحاق بن نجيح وهو متروك. (الموضوعات:2/138).
٢. علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ محمد بن ابراہیم القرشی ثقہ نہیں اور اس کا استاد ابوصالح مجہول ہے.
وقال الذهبي رحمه الله: هذا الحديث يرويه هشام بن عمار، عن محمد بن إبراهيم القرشي، عن أبي صالح، عن عكرمة، عن ابن عباس، ومحمد هذا ليس بثقة، وشيخه لا يدرى من هو. (سير أعلام النبلاء:9/217-218)۔
٣. علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ عقیلی نے اس روایت کی دو سندیں ذکر کی ہیں اور پھر فرمایا کہ دونوں سندوں کی کوئی اصل نہیں.
وقال الحافظ ابن حجر رحمه الله: أخرجه العقيلي في ترجمة محمد بن إبراهيم القرشي، من طريق هشام بن عمار، عنه، عن أبي صالح، عن عكرمة، عن ابن عباس… (فذكر الحديث بطوله) ثم قال: ورواه سليمان بن عبدالرحمن، عن الوليد، عن ابن جريج، عن عطاء وعكرمة، عن ابن عباس.
قال (أي: العقيلي): وكلاهما ليس له أصل.
اس روایت پر محدثین کے اقوال کا خلاصہ:
١. امام ترمذی نے اس روایت کو غریب (انوکھے الفاظ والی روایت) قرار دیا ہے.
فقد قال الترمذي بعد روايته: غريب.
٢. امام عقیلی کہتے ہیں کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں.
وقال العقيلي: ليس له أصل.
٣. امام منذری کہتے ہیں کہ سند تو اچھی ہے لیکن متن بڑا عجیب و غریب ہے.
وقال المنذري في الترغيب والترهيب (ج:2، ص:236): قال المملي رضي الله عنه: طريق أسانيد هذا الحديث جيدة ومتنه غريب جدا. والله أعلم.
٤. ابن جوزی نے اس کو موضوع قرار دیا ہے.
وأورده ابن الجوزي في الموضوعات (2/138) وقال: هذا حديث لا يصح.
٥. امام ذہبی کہتے ہیں کہ میں اس روایت سے مطمئن نہیں.
وقال الذهبي في الميزان (2/213): وهو مع نظافة سنده حديث منكر جداً في نفسي منه شيء. فالله أعلم.
٦. امام سیوطی کہتے ہیں کہ حاکم نے اس روایت کو صحیح کہا ہے جبکہ یہ روایت تو حسن کہلانے کے بھی قابل نہیں اور دل اس روایت سے مطمئن نہیں.
وقال السيوطي في اللآلي الموضوعة: أخرجه الحاكم وقال: صحيح على شرط الشيخين؛ ولم تركن النفس الى مثل هذا من الحاكم فالحديث يقصر عن الحسن فضلا عن الصحة.
خلاصہ کلام
اس روایت پر من گھڑت ہونے کا حکم لگانا تو کافی مشکل ہے لیکن اکابر محدثین کا اس کے متن سے مطمئن نہ ہونا بھی بہت عجیب ہے، لہذا اس روایت کو آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنے میں احتیاط کرنا ہی بہتر ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ