مینڈک کو قتل نہ کرنا
● سوال:
ایک بات سنی ہے کہ آپ علیہ السلام نے مینڈک کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مینڈک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ کو بجھانے کیلئے پانی لاتا تھا…
اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
جن روایات میں مینڈک کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے وہ روایات سند کے لحاظ سے (اپنے شواہد کے ساتھ) درست ہیں، اور آپ علیہ السلام سے مینڈک کو قتل نہ کرنے کا حکم ثابت ہے (محدثین کے اقوال کے اختلاف کے ساتھ)
● روایت نمبر: ١
آپ علیہ السلام نے پانچ چیزوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا: چیونٹی، شہد کی مکھی، مینڈک، صرد(چڑیا کی طرح ایک پرندہ)، اور ہدہد.
□ روى البيهقي في سننه عن سهل بن سعد الساعدي أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن قتل خمسة: النملة والنحلة والضفدع والصرد والهدهد.
● روایت نمبر: ٢
عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ مینڈک کو قتل کرنے سے منع کیا گیا کیونکہ اس کی آواز تسبیح ہے.
□ روى البيهقي عن عبدالله بن عمرو رضي الله عنهما قال: لا تقتلوا الضفادع فإن نقيقها تسبيح.
● روایت نمبر: ٣
ایک طبیب نے مینڈک کو دوا میں ڈالنے کیلئے آپ علیہ السلام سے اجازت چاہی تو آپ علیہ السلام نے مینڈک کو قتل کرنے سے منع فرمایا.
□ وما رواه أحمد أبوداود والنسائي والبيهقي بلفظه وصححه الحاکم ووافقه الذهبي والألباني عن عبدالرحمن بن عثمان القرشي رضي الله عنه قال: إن طبيبا سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن ضفدع يجعلها في دواء؟ فنهاه رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قتلها.
○ مینڈک کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرنا:
اس موضوع سے متعلق مختلف روایات منقول ہیں:
١. پہلی روایت:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مینڈک کو امن دو کیونکہ اس کی آواز تسبیح ہے، اور تمام جانوروں نے ابراہیم علیہ السلام والی آگ کو بجھانے کی اجازت چاہی تو مینڈک کو ہی اجازت دی گئی.
١- أخبر أبوسعيد الشامي عن أبان عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “أمنوا الضفدع فإن صوته الذي تسمعون تسبيح وتقديس وتكبير. إن البهائم استأذنت ربها في أن تطفئ النار عن إبراهيم فأذن للضفادع فتراكبت عليه فأبدلها الله بحر النار الماء”.
٢. دوسری روایت:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مینڈک کو برا مت کہو کہ اس کی آواز تسبیح ہے….. الخ
٢- أخبرنا أَبُوسعيد الشَّامي عَن أبان عَن أنس قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: لَا تسبوا الضفدع فَإِنَّ صَوته تَسْبِيح وتقديس وتكبير، إِن الْبَهَائِم اسْتَأْذَنت رَبهَا فِي أَن تُطْفِئ النَّار عَن إِبْرَاهِيم فَأذن للضفادع فتراكبت عَلَيْهِ فأبدلها الله بَحر النَّار برد المَاء.
٣. تیسری روایت:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مینڈک ابراہیم علیہ السلام کی آگ کو بجھاتا تھا اور گرگٹ اس کو پھونک مار کر جلاتا تھا.
٣- حدث معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم “كانت الضفدع تطفىء النار عن إبراهيم وكان الوزغ ينفخ فيه فنهي عن قتل هذا وأمر بقتل هذا”.
٤. چوتھی روایت:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مینڈک کو قتل مت کرو کیونکہ یہ اللہ کی مخلوقات میں سب سے زیادہ ذکر کرنے والی مخلوق ہے.
٤- حدث سليمان بن أرقم عن الزهري عن ابن المسيب عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “لا تقتلوا الضفادع فإنها من أكثر من خلقه الله ذكراً وأمر بقتل الوزغ في الحل والحرم”.
■ ان روایات کی اسنادی حیثیت:
پہلی روایت کی سند:
اس روایت کی سند میں دو راوی کافی کمزور ہیں: ابوسعید الشامی اور ابان جس کی وجہ سے یہ روایت ناقابل اعتبار ہے.
١- ذكره عبدالرزاق الصنعاني في مصنفه بإسناد شديد الوهن لأن أبان متروك، وأباسعيد الشامي وهو نفسه سعيد الوحاظي فإذا هو نفسه عبدالقدوس بن حبيب وهو مجروح.
دوسری روایت کی سند:
اس کی سند بھی بعینه پہلی والی ہی سند ہے، لہذا یہ بھی ناقابل اعتبار ہے.
٢- ذكره السيوطي في الدر المنثور بنفس الإسناد الواهي عند عبدالرزاق الصنعاني وبلفظ: “لا تقتلوا الضفادع” بدلا من “لا تسبوا”.
تیسری روایت کی سند:
اس روایت کی سند پر محدثین کا کلام ہمیں نہیں مل سکا
بلکہ ایک تحقیقی ادارے نے لکھا ہے کہ محدثین کا کلام ہماری نظر سے نہیں گزرا
هذا الحديث لم نقف على حكم أئمة الحديث عليه بصحة أو ضعف وإن كانوا قد تركوه فقد تركناه.
چوتھی روایت کی سند:
اس کی سند میں ایک راوی ہے سلیمان بن ارقم جس کو محدثین نے متروک قرار دیا ہے.
٤- ذكره إبن أبي حاتم في العلل قال: وسليمان بن أرقم متروك.
خلاصہ کلام
یہ بات تو درست ہے کہ آپ علیہ السلام نے مینڈک کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، لیکن اس منع فرمانے کی وجہ مینڈک کا ابراہیم علیہ السلام کی آگ کو بجھانے کی کوشش کرنا ہے، یہ بات درست نہیں، کیونکہ جن روایات میں یہ بات مذکور ہے وہ تمام روایات سند کے لحاظ سے کافی کمزور ہیں، لہذا اس بات کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنے سے احتراز کیا جائے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١١ جولائی ٢٠١٩ مکہ مکرمہ