تنبیہ نمبر 214

قبرِ رسول اور نورالدین زنگی

سوال: محمد علی مرزا صاحب کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ نور الدین زنگی کا مشہور واقعہ جس میں کچھ یہودی قبرِ رسول سے جسم مبارک چوری کرنے آئے تھے… الخ
یہ واقعہ بالکل من گھڑت ہے اور اس کے من گھڑت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جس کتاب میں یہ واقعہ موجود ہے وہ ہے وفاء الوفاء اور اس کا مصنف علامہ سمہودی پانچ سو سال پہلے کے واقعے کو بلا سند بیان کرتا ہے جبکہ ان سے پہلے کسی نے یہ واقعہ بیان نہیں کیا، لہذا یہ ناقابل اعتبار ہے. دوسری وجہ ناقابل اعتبار ہونے کی یہ ہے کہ یہ قرآن مجید کے بھی خلاف ہے کیونکہ قرآن میں ارشاد ہے: {والله يعصمك من الناس} اور اللہ آپ کی حفاظت کرےگا لوگوں کے شر سے. تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کسی بھی لشکر یا سپہ سالار کی ضرورت نہیں ہے… برائے مہربانی اس کی حقیقت بیان فرما دیں… (سائل: مولانا سفیان فاروق)
الجواب باسمه تعالی

واضح رہے کہ کتب تاریخ میں روضہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو کھود کر آپ علیہ السلام کے جسد اطہر کو منتقل کرنے کی کوشش کرنے والوں کے پانچ واقعات منقول ہیں:

١. پہلا واقعہ:

یہ عبیدی حاکم امر اللہ کے دور میں پیش آیا تاکہ آپ علیہ السلام کے جسد مبارک کو مصر منتقل کیا جائے اور لوگ مصر کو مرکز بنالیں، لیکن جب اہل مدینہ کو علم ہوا تو انہوں نے ان لوگوں سے جنگ کرکے ان کو بھگا دیا، اور اگلے دن اللہ تبارک وتعالی نے ہوا چلا کر ان کی سازش کو ناکام بنادیا.

٢. دوسرا واقعہ:

دوسری کوشش بھی اسی خلیفہ نے کی، اس نے کچھ لوگ بھیجے جو سرنگ کے ذریعے آپ علیہ السلام کی قبر تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگے تو اہلِ مدینہ کو ایک آواز سنائی دی کہ تمہارے نبی کے جسد مبارک کو لے جایا جارہا ہے، لوگوں نے تلاش کرکے ان لوگوں کو قتل کردیا.

٣. تیسرا واقعہ:

یہ واقعہ سلطان نورالدین زنگی کے زمانے میں پیش آیا کہ ایک عیسائی بادشاہ نے دو شخصوں کو بھیج کر کھدائی کروائی، سلطان کو خواب میں اس بات کی اطلاع دی گئی اور وہ دو شخص خواب میں دکھائے گئے…..الخ

٤. چوتھا واقعہ:

اس واقعے کو مؤرخ ابن جبیر نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ روم کے کچھ ڈاکو آپ علیہ السلام کے جسد مبارک کو نکالنے کی غرض سے مدینہ جارہے تھے تو ایک مشہور سپہ سالار حاجب لؤلؤ سے آمنا سامنا ہوا اور اس نے ان کو قتل کروایا.

٥. پانچواں واقعہ:

یہ واقعہ ساتویں صدی کے درمیان میں ہوا جب آدھی رات کے وقت تقریبا چالیس لوگ (اس غرض سے) مسجد نبوی میں داخل ہوئے اور منبر کے قریب زمین میں دھنس گئے.

سلطان نور الدین زنگی کے واقعے کو سب سے پہلے بیان کرنے والا:

محمد علی مرزا کا دعوی ہے کہ اس واقعہ کو سب سے پہلے سمہودی نے نور الدین زنگی کے انتقال کے 500 سال بعد بغیر سند کے ذکر کیا ہے، انکا یہ دعوی ہی غلط ہے. اس واقعے کو سلطان کے انتقال کے 104 سال بعد پیدا ہونے والے مسجد نبوی کے مؤذنین میں سے علامہ مطری نے نقل کیا ہے.

الجمال المطري محمد بن أحمد بن محمد بن خلف بن عيسى بن عباس بن بدر بن يوسف بن علي بن عثمان الأنصاري السعدي العبادي المدني العلامة أقضى القضاة جمال الدين أبو عبدالله مولده في سنة إحدى أو ثلاث وسبعين وستمائة.

شیخ المطری حدیث،فقہ اور تاریخ کے امام تھے، اسی طرح مدینہ منورہ کے امام، قاضی اور خطیب بھی رہے، مدینہ کی تاریخ پر ان کی کتاب ہے جسکا نام “التعریف بما أنست الهجرة من معالم دارالهجرة” ہے.

وكان إماما له مشاركة وتبحر في فنون من العلم، منها: الحديث والفقه والتاريخ ولي نيابة القضاء والإمامة والخطابة بالمدينة النبوية على الحال بها أفضل الصلاة والسلام وألف لها تاريخا سماه (التعريف بما أنست الهجرة من معالم دار الهجرة)
روى عن أبي اليمن عبدالصمد بن عبدالوهاب ابن عساكر والحافظ شرف الدين الدمياطي والتاج علي بن أحمد الغرافي والأمين محمد بن القطب القسطلاني والامام عفيف الدين عبدالسلام ابن محمد بن مزروع والشيخ أبى محمد عبدالله بن عمران السكري وأبي المعالي أحمد بن إسحاق بن المؤيد الأبرقوهي وتقي الدين الحسين بن علي بن ظافر بن أبي المنصور المالكي والعز الفارقي، وحدث بالحرمين الشريفين، مات رحمه الله تعالى بالمدينة الشريفة على الحال بها أفضل الصلاة والسلام في سنة إحدى وأربعين وسبعمائة ودفن بالبقيع.

حافظ ابن حجر رحمه اللہ علامہ مطری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مطری مسجد نبوی کے مؤذنین میں سے تھے، بہترین آواز تھی اور ایک مفید تاریخ لکھی اور مختلف فنون میں ان کو مہارت تھی.

فقد ترجم له الحافظ ابن حجر في “الدرر الكامنة” (5/42) بقوله: وحدث وله نظم وكان أحد الرؤساء المؤذنين بالمسجد النبوي ومن أحسن الناس صوتاً، وصنف تاريخاً مفيداً وكانت له مشاركة في الفنون وناب في الحكم وفي الخطابة وفضائله جمة.

علامہ سخاوی لکھتے ہیں کہ یہ اپنے والد کے بعد مؤذنین کے رئیس بنے اور یہ مختلف علوم کے ماہر اور انساب عرب کے امام تھے اور مدینہ کی بہترین تاریخ لکھی.

وترجم له الحافظ السخاوي في “التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة” (2/413) ترجمة حافلة وصفه فيها بالحافظ وقال: وخلف والده في رئاسة المؤذنين بالمسجد النبوي وكان من أحسن الناس صوتاً وناب في الحكم والخطابة هناك وكان إماماً عالماً مشاركاً في العلوم عارفاً بأنساب العرب له يد في ذلك، مع زهد وعبادة وشعر رائق وفضائل جمة، وصنف للمدينة تاريخاً مفيداً.

ابن فہد نے بھی ان کو علم حدیث، فقہ اور تاریخ کا عالم قرار دیا اور ان کی کتاب کی تعریف کی.

وقال ابن فهد في “لحظ الألحاظ” (ص:75): العلامة أقضى القضاة جمال الدين أبو عبدالله، وكان إماماً له مشاركة وتبحر في فنون من العلم منها الحديث والفقه والتاريخ ولي نيابة القضاء والإمامة والخطابة بالمدينة النبوية، وألف لها تاريخاً سماه “التعريف بما أنست الهجرة من معالم دار الهجرة”، وكان ذا خلق حسن جامعا للفضائل والمحاسن صدراً من الصدور، وكان رئيس المؤذنين بالحرم الشريف النبوي.

حافظ ابن ناصر نے ان کی تاریخ سے حوالہ نقل کیا.

ووصفه الحافظ ابن ناصر الدين بالحافظ، ونقل عن تاريخه، فقال في توضيح المشتبه (6/239) تعقيباً على قول الحافظ الذهبي في “وغرس” بالضم: بئر غرس بالمدِينة، ذكره لي ابن المطري.
علامہ مطری کے اس واقعے کی سند:

جیسا کہ یہ بتایا گیا ہے کہ سلطان اور مطری کے درمیان ایک صدی کا فرق ہے اور اس میں علامہ مطری کی سند یہ ہے کہ میں نے یہ واقعہ یعقوب بن ابی بکر سے سنا اور انہوں نے اپنے بڑوں سے یہ بات سنی اور یعقوب کے والد حرم مدینہ کے خدام میں سے تھے جو مسجد نبوی میں لگنے والی آگ میں شہید ہوئے تھے.

أَنَّ المَطَريَّ يصرِّح بمن سمع منه هذه القصة، فيقول: سمعتُها من الفقيه علم الدين يعقوب بن أبي بكر المحترق أبوه ليلة حريق المسجد، عمن حدَّثه من أكابر من أدرك.
مطری سے اس واقعے کو نقل کرنے والے مؤرخین عظام:
١. الزين المراغي في “تحقيق النصرة” (ص:146-147).
٢. وابن قاضي شهبة في “الدر الثمين في سيرة نور الدين” (ص:72-73).
٣. والسمهودي في “وفاء الوفا” (2/650-651).
٤. وابن العماد في “شذرات الذهب” (4/230-231).
٥. والبرزنجي في “نزهة الناظرين” (ص:83-84)
● حدیث اور تاریخ کی سند کا معیار ایک ہے یا الگ الگ:

امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ جس بات کی نسبت آپ علیہ السلام یا صحابہ کرام کی طرف کی جاتی ہے اس میں سند کی صحت کو دیکھا جاتا ہے، لیکن جو بات اس کے بعد تاریخ سے متعلق ہو اس میں اس بات کا اہل تاریخ کے درمیان مشہور ہونا ہی کافی ہوتا ہے.

قال شيخ الإسلام ابن تيمية: (قال الإمام أحمد: ثلاثة علوم ليس لها أصول: المغازي والملاحم والتفسير. وفي لفظ: “ليس لها أسانيد” ومعنى ذلك أن الغالب عليها أنها مرسلة ومنقطعة، فإذا كان الشيء مشهوراً عند أهل الفن وقد تعددت طرقه فهذا مما يرجع إليه أهل العلم بخلاف غيره).
– قال ابن تيمية رحمه الله: فعلماء الدين أكثر ما يحررون النقل فيما نقل عن النبي صلى الله عليه وسلم لأنه واجب القبول أو فيما ينقل عن الصحابة، وأما الاسرائليات ونحوها فهم لا يكترثون بضبطها ولا بأحوال نقلها.
اس واقعے کے متعلق عرب علمائےکرام کی رائے:

شیخ صالح بن عثیمین سے جب یہ واقعہ پوچھا گیا تو انہوں نے باقاعدہ اس واقعے کو بیان کیا، گویا اس کے وقوع کی تصدیق کی.

عرب کی مشہور علم حدیث کی تحقیق کرنے والے ادارے الاسلام سوال جواب، ملتقی اہل حدیث اور اسلام ویب نے بھی باقاعدہ ان واقعات کو بیان کیا ہے اور اس پر رد نہیں کیا.

انجینیر محمد علی مرزا رہبر یا فتنہ:

انجینئر محمد علی مرزا نہ تو باقاعدہ عالم ہیں اور نہ ہی دینی تعلیم باقاعدہ طور پر حاصل کی ہے بلکہ اپنے مطالعے سے اردو ترجمے کے ذریعے چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور بہت سرسری سی باتوں سے متأثر ہوتے ہیں (جیسا کہ نماز میں ہاتھوں کے چھوڑنے کی روایات میں شیعوں سے متأثر ہوئے ہیں) اور واضح روایات کا انکار کرتے ہیں (جیسا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل) اور تمام امت کی غیر معمول روایت کو عمل میں لانے کی بات کرتے ہیں (جیسا کہ ظہر عصر کو مدینہ میں جمع کرنے کی روایت)

ان کے بارے میں موجودہ دور کے علمائےکرام کی رائے درج ذیل ہے:
علمائے اہل حدیث کی رائے:

یہ خود کو شیخ زبیر علی زئی رحمه الله کا شاگرد ظاہر کرتا ہے حالانکہ حافظ عمر صدیق حفظه الله سے میں نے محمد علی مرزا کے متعلق انکا موقف دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ میرا اس کے بارے میں وہی موقف ہے جو شیخ زبیر علی زئی کا تھا کہ وه متروک ہے.

● علمائے دیوبند کی رائے:

ہمارے علم کے مطابق یہ شخص (یعنی انجینیئر مرزا علی) فکری انحراف کا شکار ہے، اس لئے اس کے بیانات سننے سے احتراز کیا جائے، کسی مسئلے سے متعلق حکم شرعی معلوم کرنا ہو یا کسی مسئلے پر کوئی اشکال ہو تو مستند علماء سے رابطہ کرکے حکم شرعی یا اشکال کا جواب معلوم کرلیا جائے، یہی اسلم طریقہ ہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)

(دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)

● علمائے بریلوی کی رائے:

میں سید مبشر رضا قادری آمنے سامنے بیٹھ کر مرزا کو مناظرہ کی دعوت پیش کرتا ہوں. (تاریخ دعوت مناظرہ:28-1-2017)

ڈاکٹر حافظ زبیر نے محمد علی مرزا کے ریسرچ پیپر کے حوالے سے ان سے ایک طویل مکالمہ کرکے یہ نتیجہ نکالا کہ انجینئر مرزا صاحب دین اور دینی علوم سے حد درجے دور ہیں۔

عربی میں اصول حدیث، اصول فقہ، اصول تفسیر، عقیدہ وغیرہ کی کسی کتاب کے بھی نہ تو دو لفظ پڑھ سکتے اور نہ ہی ان کا ترجمہ کر سکتے ہیں۔

مرزا صاحب ترجمے کی کتابوں سے کام چلاتے ہیں، عربی زبان کے علاوہ دینی علوم کی بنیادی اصطلاحات سے بھی ناواقف ہیں۔

خلاصہ کلام

سلطان نور الدین زنگی کے زمانے میں آپ علیہ السلام کی قبر مبارک پر پیش آنے والا تاریخی واقعہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو ہر زمانے کے مؤرخین نے نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ اس کو بیان بھی کیا ہے، لہذا کسی شخص کے انکار کرنے سے اس واقعے کا انکار نہیں کیا جا سکتا، خصوصا جبکہ اس بات کو بیان کرنے والا شخص خود بھی علمی اعتبار سے اس قابل نہ ہو کہ اس کی تحقیق کو قابل اعتبار مانا جائے.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢ اگست ٢٠١٩ مکہ مکرمہ

اپنا تبصرہ بھیجیں