چاند کے ٹکڑے اور سطیحہ
سوال
مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے
ان کا نام حبیب بن مالک تھا، اور وہ یمن کے بہت بڑے سردار تھے، ابوجہل نے پیغام بھیجا کہ حبیب محمد (ﷺ) نے فلاں تاریخ کو چاند کے دو ٹکڑے کرنے ہیں۔ تم یہاں آجاؤ، اور چاند کو دیکھنا کہ وہ دو ٹکڑے ہوتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ حبیب بن مالک نے رخت سفر باندھا اور کوہ ابوقیس پر پہنچ گئے، جہاں کفار نے مطالبہ کر دیا تھا کہ آسمانی معجزہ یہاں دکھاؤ یا چاند کو دو ٹکڑے کرو…
میرے آقا حضرت محمّد مصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم تشریف لائے، چاند کو دو ٹکڑے کیا، اور واپس تشریف لے گئے۔ خصائص الکبری میں موجود ہے کہ ڈیڑھ گھنٹہ تک چاند دو ٹکڑے رہا…
حبیب بن مالک یہ دیکھ کر حضور اکرم حضرت محمّد مصطفٰی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس تشریف لے آئے اور بولے: یہ سب ٹھیک ہے لیکن بتائیں میرے دل کو کیا دکھ ہے؟
آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا: “تیری ایک ہی بیٹی ہے، جس کا نام سطیحہ ہے، وہ اندھی، لولی، لنگڑی، بہری اور گونگی ہے۔ تجھے اسکا دکھ اندر سے کھائے جا رہا ہے۔ جاؤ اللہ تعالی نے اس کو شفاء دے دی ہے…”
حبیب یہ سنتے ہی دوڑ کر اپنے گھر آئے تو انکی بیٹی سطیحہ نے کلمہ پڑھتے دروازہ کھولا، حبیب نے پوچھا کہ سطیحہ تجھے یہ کلمہ کس نے سکھایا؟ تو اس نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا حلیہ بتایا اور بولی: اے ابا وہ آئے، مجھے زیارت بخشی اور دعا فرمائی، اور مجھے کلمہ طیبہ بھی پڑھا گئے…
حبیب واپس گئے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے، اور نہ صرف مسلمان ہوئے، بلکہ اسلام کی خدمت میں بھی پیش پیش رہے… (بحوالہ: معجزات مصطفے صلو علی الحبیب صلی اللہ تعالی علی محمدﷺ)
کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
کسی بھی واقعے کی تصدیق کیلئے اس واقعے کی سند کو دیکھنا بہت ضروری ہوتا ہے اور جب اس واقعے کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کی جائے تو وہ حدیث کہلاتی ہے، پھر اس کی سند کا ہونا، سند کا معتبر ہونا اور اس واقعے کا مستند کتب میں موجود ہونا بھی ضروری ہوتا ہے.
سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، اور جن کتب میں موجود ہے وہاں واقعے کے بیان میں اس قدر تضاد ہے کہ جو اس واقعے کے وجود کو مشکوک بناتا ہے. مثالوں سے بات واضح کی جاتی ہے:
١. پہلی مثال
ایک جگہ حبیب بن مالک کا تعارف ایک بہت بڑے عالم کی شکل میں کرایا جاتا ہے جو تمام علوم سماویہ کا ماہر ہے، جو اپنے علم سے آپ علیہ السلام کو شکست دےگا.
□ كان ابوجهل يحرض اسياد مكة على النبى، حتى قرروا ان يسيروا الى حبيب ابن مالك وهو عالم قد قرأ علوما كثيرة، قرأ كل الكتب السماوية وعبادة الاصنام. كان عثمان بن عفان رضى الله عنه خائف على رسول الله من هذا الرجل (حبيب بن مالك) لانه قادر على تحريض الناس على الرسول اكثر من ابوجهل.
٢. دوسری مثال
بعض کتب میں حبیب بن مالک کا تعارف ایک بہت بڑے بادشاہ کے طور پر کرایا جاتا ہے.
□ حديثه انه كان هناك امير لأحد الامارات القريبة من مكة ويدعى حبيب بن مالك. اراد حبيب بن مالك الامير والملك المتوج ان يحج الى بيت الله الحرام الكعبة على دين الوثنية (زيارة الاصنام اللات والعزة) وعندما شرع فى الزيارة استقدم معه وبرفقته اكثر من اثنى عشر الف من الخدم والجنود والحراس وعتاد كبير ومكث بمنطقة قريبة من مكة لتسع جنودة وحراسة وخدمة ثم حضر الى مكة وفى ساحة الكعبة تقابل مع المشركين ابوجهل واخرين يستفسر عن احوال مكة والعرب وسألهم عن محمد الذى يدعى النبوة.
٣. تیسری مثال
حبیب بن مالک ایک انتہائی معمر شخصیت ہے جن کی عمر چار سو(٤٠٠) سال ہے اور وہ بڑا عالم ہے.
□ إتفق رأيهم أن يمضوا إلي حبيب إبن مالك إبن عوف إبن هاشم إبن عياض إبن شيبة وأنت تعلم أن حبيباً رجل عالم وله من العمر أربعمائة سنه وما أدري ما الذي يريدون، فقال عثمان: يامحمد! أنا أعرف أن حبيباً قد تهود وتنصر وتمجس ولا ديناً الا ودخل فيه ولا كتاباً إلا ودرسه.
٤. چوتھی مثال
سوال میں مذکور واقعہ میں حبیب بن مالک یمن کا ایک سردار ہے جس کی ایک معذور بیٹی ہے.
اس واقعے کی اسنادی حیثیت
یہ واقعہ سند کے لحاظ سے ثابت نہیں اور اس کے متن میں بھی انتہائی تضاد ہے جو کہ اس واقعے کے عدم ثبوت کی دلیل ہے.
خلاصہ کلام
واقعہ شق قمر (چاند کے دو ٹکڑے ہونا) ایک مشہور واقعہ ہے جو مختلف کتب میں موجود ہے لیکن اس کے ساتھ جڑا ہوا یہ دوسرا واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٣ ستمبر ٢٠١٩ کراچی