بےدانہ کھجور کی حقیقت
سوال
مندرجہ ذیل واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے:
ایک بار ایک شریر یہودی نے محض شرارت میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں کھجور کی ایک گٹھلی پیش کی اور یہ شرط رکھتے ہوئے کہا کہ اگر آپ آج اس گٹھلی کو مٹی اور پانی کے نیچے دبا دیں اور کل یہ ایسا تناور کھجور کا درخت بن کر زمین پر لہلہانے لگے جس میں پھل (یعنی کھجوریں) بھی پیدا ہوجائیں تو میں آپکی تعلیمات پر ایمان لے آؤں گا، گویا مسلمان ہو جاؤں گا۔
نبی کریم ﷺ نے اس کی یہ شرط تسلیم کرلی اور ایک جگہ جا کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس گٹھلی کو مٹی کے نیچے دبا دیا اور اس پر پانی ڈالا اور الله سبحانه وتعالی سے دعا بھی کی اور وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔
اس یہودی کو دنیاوی اصولوں کی کسوٹی پر یقین کامل تھا کہ ایک دن میں کسی طرح بھی کھجور کا درخت تیار نہیں ہو سکتا تھا، لیکن رسول مکرم صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس کی روحانیت اور آپکا اعتماد اسکے دل میں کھٹک اور خدشہ ضرور پیدا کر رہا تھا کہ کہیں کل ایسا ہو ہی نہ جائے کہ کھجور کا درخت اگ جائے اور اسے ایمان لانا پڑ جائے، اس نے اپنے اس وسوسے کو دور کرنے کے لئے پھر دنیاوی اصولوں کی مدد لی اور شام کو اس مقام پر جا کر جہاں کھجور کی گٹھلی آقا دو جہاں صلی الله علیہ وسلم نے بوئی تھی اسکو وہاں سے نکال لیا اور خوش خوش واپس آگیا کہ اب کھجور کا نکلنا تو درکنار، کھجور کے درخت کا نکلنا ہی محال ہے، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ جب معاملہ الله سبحانه وتعالی اور اسکے رسول صلی الله علیہ وسلم کے درمیان ہو تو دنیاوی اسباب بےمعنی ہو جاتے ہیں۔
اگلے دن آقا دو جہاں صلی الله علیہ وسلم اور وہ یہودی مقام مقررہ پر پہنچے تو وہ یہودی یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں ایک تناور درخت کھجور کے گچهوں سے لدا کھڑا ہے، اس یہودی نے جب اسکی کھجور کو کھایا تو اسمیں گٹھلی نہیں تھی تو اسکے منہ سے بےاختیار نکلا: اس کی گٹھلی کہاں ہے؟
مرقوم ہے کہ اس موقع پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ گٹھلی تو تم نے کل شام ہی نکال لی تھی اسلئے گٹھلی تو کھجور میں نہیں ہے، البتہ تمہاری خواہش کے مطابق کھجور کا درخت اور کھجور موجود ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ یہودی الله سبحانہ وتعالی کے اذن سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اس معجزے کو دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔
اس واقعے کے بعد سے آج تک بغیر گٹھلی والی معجزاتی کھجور مدینہ منورہ میں خوب اگتی ہے، دکانوں پر فروخت بھی ہوتی ہے، اس کھجور کا اصل نام ”سکھل” ہے۔ اسے ”سخل” بھی کہتے ہیں۔ اگر آپکو نام یاد نہ بھی رہے تو آپ اسے ”بےدانہ کھجور” کہہ کر بھی طلب کر سکتے ہیں۔
اب بہت زیادہ علم رکھنے والے بالخوصوص ”نباتیات” (BOTANY) کے ماہرین یہ بھی پوچھیں گے کہ جب ”سکھل کھجور” میں گٹھلی نہیں تو اسکی مزید کاشت چودہ سو سالوں سے کیسے ہو رہی ہے؟ تو بتانے والوں نے بتایا ہے کہ اس کے سوکھے پتے کھجور کے باغوں میں مٹی میں مدغم ہو کر نئے پودوں کی بنیاد بن جاتے ہیں… (والله اعلم)
کیا یہ پورا واقعہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، بلکہ من گھڑت روایات کی کتابوں میں بھی اس کا تذکرہ نہیں ملتا، لہذا اس واقعے کو موجودہ دور کی ایجاد کہا جاسکتا ہے.
بےدانہ کھجور کا احادیث میں تذکرہ
بےدانہ کھجور کو عربی میں سُخَل (سین کے پیش اور خاء کے زبر کے ساتھ) کہتے ہیں اور یہ ناقص قسم کی کھجور کہلاتی ہے جو کہ پسندیدہ نہیں ہوتی
*١. آپ علیہ السلام نے صدقے کا حکم دیا تو ایک شخص بیکار کھجور کا ایک گچھا لے آیا تو آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ یہ کون لایا ہے؟ اور اس پر یہ آیت بھی نازل ہوئی کہ تم لوگ بیکار چیزوں کو صدقے کی نیت سے خرچ نہ کرو.*
□ عن الزهري ، عن أبي أمامة بن سهل، عن أبيه قال: أمر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بصدقة، فجاء رجل من هذا السخل بكبائس (فقال سفيان: يعني الشيص)، فقال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: “من جاء بهذا؟” وكان لا يجيء أحد بشيء إلا نسب إلى الذي جلبه فنزلت: {ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون}. (مستدرک حاکم (ج:1) کتاب الزکوة)
٢. ایک دوسری روایت میں ہے کہ کچھ لوگ اصحاب صفہ کیلئے بیکار کھجوریں لاتے تھے تو اللہ تبارک وتعالی نے اس پر تعزیر فرمائی
□ والحاكم وصححه والبيهقي في سننه عن البراء بن عازب في قوله: {ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون} قال: نزلت فينا معشر الأنصار، كنا أصحاب نخل وكان الرجل يأتي من نخله على قدر كثرته وقلته، وكان الرجل يأتي بالقنو والقنوين فيعلقه في المسجد، وكان أهل الصفة ليس لهم طعام، فكان أحدهم إذا جاع أتى القنو فضربه بعصاه فيسقط البسر والتمر فيأكل، وكان ناس ممن لا يرغب في الخير يأتي الرجل بالقنو فيه الشيص والحشف وبالقنو قد انكسر فيعلقه، فأنزل الله: {يا أيها الذين آمنوا أنفقوا من طيبات ما كسبتم ومما أخرجنا لكم من الأرض ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون ولستم بآخذيه إلا أن تغمضوا فيه} فكنا بعد ذلك يأتي أحدنا بصالح ما عنده.
٣. ایک اور روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے صدقے کا حکم دیا تو ایک شخص بیکار کھجور لے آیا تو آپ علیہ السلام نے اس کو قبول نہیں فرمایا
□ وأخرج عبد بن حميد عن جعفر بن محمد عن أبيه قال: لما أمر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بصدقة الفطر فجاء رجل بتمر ردئ، فأمر النبي صلى الله عليه وآله وسلم الذي يخرص النخل أن لا يجيز.
٤. ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ سستی چیزیں صدقہ کرتے تھے تو اس سے منع کیا گیا
□ وأخرج ابن أبي حاتم وابن مردويه والضياء في المختارة عن ابن عباس قال: كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يشترون الطعام الرخيص ويتصدقون، فأنزل الله: {يا أيها آمنوا…..} الآية.
٥. حضرت علی سے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ لوگ اچھا مال ایک طرف کرتے تھے اور بیکار مال زکوة والوں کو دیتے تھے
□ وأخرج ابن جرير عن عبيدة السلماني قال: سألت علي ابن أبي طالب عن قول الله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا أنفقوا…} الآية، فقال: نزلت هذه الآية في الزكاة المفروضة، كان الرجل يعمد إلى التمر فيصرمه فيعزل الجيد ناحية، فإذا جاء صاحب الصدقة أعطاه من الردئ.
لغت میں سُخَل کا مطلب
١. سخل مرد کا معنی کمزور اور ذلیل مرد
□ ورجال سخل وسخال: ضعفاء أرذال.
٢. ابن جنی کہتے ہیں کہ جو بھی چیز نامکمل ہو اس کو سخل کہتے ہیں
□ قال ابن جني: قال خالد: واحدهم سخل، وهو أيضا ما لم يتمم من كل شيء. (التهذيب)
٣. جو بچے نامکمل (بونے) ہوں ان کو بھی سخل کہتے ہیں
□ ويقال للأوغاد من الرجال: سخل وسخال.
٤. جو کھجور کمزور ہو، اس کی گٹھلی اچھی نہ بنے اس کو سخل کہتے ہیں
□ والسخل: الشيص. وسخلت النخلة: ضعف نواها وتمرها. وقيل: هو إذا نفضته. الفراء: يقال للتمر الذي لا يشتد نواه: الشيص. قال: وأهل المدينة يسمونه السخل.
اہل مدینہ کی گواہی
مولانا حذیفہ ندیم صاحب مدینہ منورہ کے رہائشی نوجوان عالم دین ہیں، ان سے اس موضوع پر بات ہوئی تو فرمایا کہ کھجور میں گٹھلی کا نہ بننا عیب ہے اور یہ بیمار درخت شمار کیا جاتا ہے، کچھ عرصہ پہلے تک یہ کھجور بکریوں کو ڈالی جاتی تھی، لیکن جب سے یہ واقعات گردش کرنا شروع ہوئے ہیں اس کھجور کی مانگ میں اضافہ ہوگیا ہے.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ من گھڑت ہے، کھجور میں گٹھلی کا نہ ہونا عیب شمار کیا جاتا ہے، جس قدر گٹھلی مضبوط ہوگی اسی قدر کھجور شاندار ہوتی ہے، اور سخل کھجور کی ناقص قسم کہلاتی ہے نہ کہ یہ معجزے والی کھجور ہے
لہذا اس واقعے کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٠ دسمبر ٢٠١٩ کراچی