والدین پر اولاد کا حق
سوال
ایک مولانا نے اپنے وعظ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے کا ایک واقعہ سناتے ہوئے فرمایا: ایک باپ اپنے بیٹے کو لے کر حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ یہ میرے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے، مارتا ہے، گالیاں بکتا ہے۔ بیٹے نے کہا: کیا باپ کا ہی حق ہے اولاد کے ذمہ؟ اولاد کے حق نہیں باپ کے ذمے؟حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیوں نہیں ضرور ہے۔ تو اس بیٹے نے کہا: تو سنو۔۔۔ میری ماں فاحشہ عورت ہے، اس نے میرا نام جعل (گندگی کا کیڑا) رکھا اور مجھے دینی تعلیم سے محروم رکھا۔حضرت عمر فاروق نے باپ سے مخاطب ہو کر کہا: یہ تیری غلطی کی سزا ہے، جا تو اسے زندگی بھر بھگت۔۔۔ یہ کہہ کر مقدمے سے خارج کردیا…
اس واقعے کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ مختلف کتب واقعات میں منقول ہے لیکن حدیث کی کسی کتاب میں منقول نہیں.
□ جاء رجل إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنه يشكو إليه عقوق ابنه، فأحضر عمر الولد وابنه وأنّبه على عقوقه لأبيه، ونسيانه لحقوقه، فقال الولد: يا أمير المؤمنين! أليس للولد حقوق على أبيه؟ قال: بلى، قال: فما هي يا أمير المؤمنين؟ قال عمر: أن ينتقي أمه، ويحسن أسمه، ويعلمه الكتاب (أي القرآن)، قال الولد: يا أمير المؤمنين! إن أبي لم يفعل شيئاً من ذلك، أما أمي فإنها ونجية كانت لمجوسي، وقد سماني جُعلاً (أي خنفساء)، ولم يعلمني من الكتاب حرفاً واحداً. فالتفت عمر إلى الرجل وقال له: جئت إلي تشكو عقوق ابنك، وقد عققته قبل أن يعقك، وأسأت إليه قبل أن يسيء إليك. (تربية الأولاد في الإسلام، 1/127،128)
اس واقعے کی اسنادی حیثیت
اس واقعے کی کوئی سند باوجود تلاش بسیار کے ہمیں میسر نہ ہوسکی، اسی طرح اس واقعے کی صحت یا عدم صحت پر کوئی حکم محدثین عظام کی طرف سے ہمیں نہیں ملا اور چونکہ اس واقعے میں موجود نصیحت اور اولاد کے حقوق کی بنیاد درست ہے، لہذا کوئی واضح حکم ملنے تک اس واقعے کو درست ہی کہا جائےگا.
احادیث کی تحقیق کرنے والے ایک ادارے سے جب اس قصے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں یہ واقعہ مسندا نہیں مل سکا.
أجاب عن السؤال لجنة البحث العلمي بالموقع بإشراف الشيخ/د عبدالوهاب بن ناصر الطريري.
الجواب:
هذه القصة لم نقف عليها مسندة إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنه على شهرتها، وقد تكون في بعض المصادر مثل: “حياة الحيوان” للدميري، مادة “خنفساء، جعل”، وكتاب “بر الوالدين” لابن الجوزي.
● اولاد کی تربیت والدین کی ذمہ داری:
١. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالی اس والد پر رحم کرے جو اپنی اولاد کی نیکی میں مدد کرے.
□ وقد أخرج الإمامُ ابن أبي شيبة في مصنَّفه، في باب ما جاء في حقِّ الولد على والده، من طريق الشَّعبي، قال: قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم: “رَحِم اللهُ والدًا أعان ولدَه على برِّه”.
٢. ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ والد سے اولاد کے بارے میں پوچھا جائےگا اور اولاد سے والد کے ادب اور اچھے برتاؤ کے بارے میں پوچھا جائےگا.
□ وكان ابن عمر يقول: “إنَّ الوالِد مسؤول عن الولَد، وإنَّ الولد مسؤول عن الوالد”؛ يعني: في الأدَب والبِرِّ.
٣. ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے نیک لوگوں کو ابرار فرمایا کیونکہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے ہیں اور اپنی اولاد کے ساتھ بھی.
□ وقد تَرجم البخاريُّ في الأدب المفرد: “باب بر الأب لولده”، وساق عن ابن عمر أنَّه قال: أسماهم اللهُ عزَّوجل أبرارًا؛ لأنَّهم بَرُّوا الآباء والأبناء، فكما أنَّ لوالدك عليك حقًّا، كذلك لولدك عليك حقٌّ.
٤. ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا گیا ہے کہ ہم نے پوچھا یارسول اللہ! والد کا حق تو ہمیں معلوم ہوگیا تو اولاد کا حق کیا ہے؟ فرمایا کہ اسکا اچھا نام رکھے اور اسکو ادب سکھائے.
□ فعن ابن عبَّاس قال: قالوا: يارسولَ الله! قد علِمنا حقَّ الوالد، فما حقُّ الولَد؟ قال: أن يُحسن اسمَه، ويُحسن أدبَه.
٥. حضرت علی کہتے ہیں کہ جہنم سے بچانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ادب سکھاؤ اور علم سکھاؤ.
□ عن عليٍّ رضي الله عنه في قوله تعالى: ﴿قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا﴾ [التحريم:6] أنَّه قال: أدِّبوهم وعلِّموهم.
٦. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر گھرانے کے ذمہ دار سے پوچھا جائےگا کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کی یا ضائع کی، اور ہر گھر والے سے اس کے اہل خانہ کے بارے میں پوچھا جائےگا.
□ قال عليه الصلاة والسلام: إنَّ الله سائلٌ كلَّ راعٍ عمَّا استرعاه؛ حفِظ أم ضيَّعَ، حتى يَسأل الرجلَ عن أهل بيته. (أخرجه أحمد في مسنده، وابن حبان في صحيحه).
٧. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جس کے بچہ پیدا ہو تو اسکو چاہیئے کہ وہ اسکا اچھا نام رکھے اور اس کو ادب سکھائے اور جب بڑا ہو تو اس کی شادی کرا دے، اگر شادی نہ کرائی اور بچہ گناہ میں مبتلا ہوا تو وہ گناہ والدین پر ہوگا.
□ جاء عن أبي سعيد وابنِ عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “مَن وُلِد له ولدٌ، فليحسن اسمَه وأدبَه، فإذا بلغ فليزوِّجه، فإنْ بلَغ ولم يزوِّجه فأصاب إثمًا، فإنَّما إثمُه على أبيه”.
٨. سعید ابن العاص کہتے ہیں کہ جب میں نے اپنے بچے کو قرآن سکھایا اور حج کرایا اور اس کی شادی کرادی تو میں نے اس کا حق ادا کردیا، اب اس کے ذمے میرا حق رہ گیا.
□ وكان سعيد بن العاص يقول: إذا علَّمتُ ولدي القرآن، وحجَّجتُه، وزوَّجتُه، فقد قضيتُ حقَّه، وبقي حقِّي عليه.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے اگرچہ منقول نہیں لیکن چونکہ یہ وعظ و نصیحت سے متعلق واقعہ ہے اور آپ علیہ السلام کی طرف اسکی نسبت بھی نہیں کی گئی، نیز کسی محدث کی طرف سے اس واقعے پر کوئی حکم بھی منقول نہیں، لہذا اس واقعے کو ثابت مانا جائےگا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢ جنوری ٢٠٢٠ کراچی