والدین کو دیکھنا مقبول حج
سوال
محترم مفتی صاحب!
مندرجہ ذیل سوال اور اس پر بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء سے دیئے گئے جواب کے متعلق آپ کی تحقیق مطلوب ہے:
سوال:
حدیثِ پاک میں آیا ہے: اگر شادی شدہ لڑکی والدین کے پاس آئے اور ان کے چہرے پر عقیدت کی نظر ڈالے تو اللہ تعالی ہر نظر پر اس کو ایک حج یا عمرہ کا ثواب عطا فرمائیں گے، صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! جو اپنے والدین کو بار بار محبت اور عقیدت کی نظر سے دیکھے؟ اللہ کے نبی نے فرمایا: جتنی بار دیکھےگی اتنی بار حج یا عمرہ کا ثواب عطا کیا جائےگا۔
اس حدیث کی وضاحت مطلوب ہے، کیا یہ حدیث ہے؟
جواب:
سوال میں مذکورہ الفاظ سے تو روایت نہیں ملی، البتہ معمولی فرق کے ساتھ اسی مفہوم کی ایک روایت منقول ہے، غالباً سائل کی مراد بھی یہی حدیث ہے، ممکن ہے کہ ترجمہ نقل کرنے میں غلطی ہوئی ہو، یا سائل نے جہاں سے سنی ہو وہاں ایسے ہی بیان کی گئی ہو.
امام بیهقی رحمه اللہ فرماتے ہیں: أخبرنا أبو منصور أحمد بن علي الدامغاني… عن ابن عباس، أن رسول الله صلی الله علیه وسلم قال: ما من ولد بار ینظر إلی والدیه نظرة رحمة إلا کتب الله بکل نظرة حجة مبرورة، قالوا: وإن نظر کل یوم مائة مرة؟ قال: نعم، الله أکبر وأطیب”. (الجامع لشعب الإیمان للبیهقي:۱۰/۲۴۵)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو صالح اولاد محبت کی نظر سے اپنے والدین کو دیکھے تو اسے ہر نگاہ پر اللہ تعالیٰ ایک مقبول حج کا ثواب بخشتا ہے، لوگوں نے پوچھا: اگر دن میں سو مرتبہ دیکھے تو؟ فرمایا: تب بھی، اللہ بہت بڑا ہے اور بڑا پاکیزہ ہے۔ (یعنی ہر مرتبہ دیکھنے کا ثواب حجِ مقبول کی صورت میں ديگا)
’’الجامع لشعب الایمان‘‘ نے جس سند سے یہ حدیث ذکر کی ہے اس کے رواۃ اگرچہ ضعیف ہیں، لیکن ان میں کوئی وضاع، یا متہم بالکذب راوی موجود نہیں ہے، اور ’’الجامع الصغیر للسیوطی‘‘ میں اس حدیث کے ساتھ ضعیف کا اشارہ موجود ہے، لیکن چونکہ اس حدیث کا تعلق فضائل سے ہے اور فضائل کے ابواب میں ضعیف حدیث بھی کچھ شرائط کے ساتھ مقبول ہے، لہذا اس حدیث کو فضائل میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ سبحانه وتعالیٰ اعلم.
فتوی نمبر: 144007200344
(دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
الجواب باسمه تعالی
معراج آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی زندگی میں پیش آنے والا بہت ہی اہم واقعہ ہے، اور اس کے متعلق جہاں بےشمار صحیح روایات موجود ہیں، وہیں من گھڑت روایات اور جھوٹے راو
سوال میں مذکور روایت کی جو تحقیق دارالافتاء بنوری ٹاؤن کی طرف سے کی گئی ہے وہ درست نہیں.
ایک اس روایت کو ضعیف قرار دیا گیا ہے، اور دوسرا اس روایت کے راویوں کے بارے میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس کی سند میں کوئی وضاع یا متہم بالکذب راوی نہیں.
روایت کی اسنادی تحقیق:
یہ روایت مختلف کتب میں مذکورہ سند کے ساتھ منقول ہے.
أخبرنا أبوعبدالله الحافظ في التاريخ أنا محمد بن حامد حدثني مكي بن عبدان نا الحسن بن هارون نا منصور بن جعفر نا نهشل بن سعيد عن الضحاك عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من ولد بار ينظر إلى والدته نظرة رحمة إلا كان له بكل نظرة حجة مبرورة. قالوا! وإن نظر إليها كل يوم مائة مرة؟ قال: نعم، الله أكبر وأطيب. (شعب الإيمان، الخامس والخمسون من شعب الإيمان وهو باب في بر الوالدين)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں دو راوی متکلم فیه ہیں:
١. نہشل بن سعید.
٢. حسن بن ہارون.
١. نهشل بن سعید:
اس راوی کے متعلق محدثین کرام کے اقوال:
١. اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے.
قَالَ بن رَاهَوَيْه: كَانَ كذابا.
٢. ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ متروک روای ہے.
وقال أبوحاتم: متروك.
(الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث، لبرھان الدین الحلبی)
٣. ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ روایات چرا کر اس کیلئے اسناد از خود بناتا تھا.
أبو الفرج بن الجوزي: اتهمه بسرقة حديث ثم وضع له إسنادا.
٤. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ ثقات سے ایسی روایات نقل کرتا تھا جو ان کی ہوتی ہی نہیں، اس کی روایات لکھنا جائز نہیں.
قال أبو حاتم بن حبان البستي: ممن يروي عن الثقات ما ليس من أحاديثهم لا يحل كتابة حديثه الا على جهة التعجب.
٥. ابوداؤد کہتے ہیں کہ یہ کچھ بھی نہیں.
قال أبودواد السجستاني: ليس بشئ.
٦. یہ ضحاک سے من گھڑت روایات نقل کرتا تھا.
قال أبو سعيد بن عمرو النقاش: روى عن الضحاك الموضوعات.
٧. ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ متروک الحدیث ہے.
قال ابن حجر العسقلاني: متروك الحديث.
٨. ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بےکار راوی ہے.
قال الذهبي: واه.
دوسرا راوی حسن بن ہارون مجہول ہے.
اگرچہ اس نام کے تین راوی ہیں لیکن یہاں کونسا راوی مراد ہے، یہ جہالت بھی اس روایت کو مقدوح کرتی ہے.
خلاصہ کلام
روایات کی تحقیق میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے، اور اس علم کے ماہرین سے ہی جواب لکھوانا چاہیئے.
مذکورہ روایت سند کے لحاظ سے اس قابل نہیں کہ اس کو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف منسوب کیا جاسکے، البتہ والدین کی فضیلت اور ان کے حقوق کے متعلق صحیح روایات اس قدر کثرت سے موجود ہیں کہ اس طرح کی انتہائی کمزور روایت کو بیان نہیں کرنا چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٠ مارچ ٢٠٢٢ کراچی