سندھ اور سندھی کی فضیلت
سوال
محترم و مکرم قابل قدر مفتیان کرام وعظام!
ایک ویڈیو سے چند اقتباسات نقل کررہا ہوں جسکی تحقیق مطلوب ہے:
١. کیا آپ علیہ السلام نے صوبہ سندہ کی طرف رُخ کر کے فرمایا ہے کہ مجھے سندھ سے ٹھنڈی ہوایں آرہی ہیں؟
٢. کیا آپ علیہ السلام کے زیرِ استعمال چادروں میں سے کوئی چادر اجرک کے مشابہ تھی؟
٣. کیا آپ علیہ السلام نے اپنی پوری زندگی میں عربی زبان کے علاوہ اگر کسی اور زبان میں تکلم کیا ہے (خواہ صرف ایک بار ہی کیوں نہ ہو) تو وہ صرف سندھی زبان تھی، خصوصا اس موقعے پر جب آپ علیہ السلام کے پاس سندھ سے ایک وفد آیا تھا تو آپ علیہ السلام نے ایک جملہ سندھی کا بھی ارشاد فرمایا تھا.
٤. کیا سندھ سے بھی کوئی وفد آیا ہے آپ علیہ السلام کی خدمت اقدس میں؟ اور کس مقصد کے لئے اس وفد کی حاضری ہوئی تھی؟
برائے مہربانی مذکورہ بالا تمام باتوں کی تحقیق فرما دیجئے…
(سائل: طالبعلم ضیاءالدین )
الجواب باسمه تعالی
مولانا راشد محمود سومرو کی یہ ویڈیو بہت وائرل ہوئی تھی، اور اسی وقت وائس میسج میں اس کا جواب بھی بندہ نے ریکارڈ کروایا تھا جس میں حدیث شریف پڑھنے میں ہم سے اعرابی غلطی بھی ہوئی تھی.
مولانا صاحب کے چار دعوے:
١. پہلا دعوی:
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے سندھ سے ٹھنڈی ہوا کے متعلق فرمایا کہ مجھے سندھ سے ٹھنڈی ہوا محسوس ہو رہی ہے.
اس متعلق تلاش بسیار کے باوجود بھی کوئی روایت نہیں مل سکی.
شیخ طلحہ منیار صاحب نے اپنے مضمون میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہندوستانی خوشبو کے متعلق ایک روایت نقل کی ہے کہ قریب ترین بات یہ ہوسکتی ہے.
له طريق أخرى، أخرجها عبدالرزاق في المصنف (رقم: 9118) والأزرقي (2/50) والفاكهي (رقم: 1110) كلاهما في أخبار مكة من طرق عن ابن عيينة عن فرات القزاز عن أبي الطفيل قال: سمعت عليا يقول: خير واد في الناس وادي مكة، وواد بالهند الذي أهبط فيه آدم، ومنه يؤتى بهذا الطيب الذي تطيبون به…
٢. دوسرا دعوی:
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اجرک استعمال فرمائی.
آپ علیہ السلام نے جن چادروں کو استعمال فرمایا، ان چادروں میں مختلف دھاریاں تھیں، سرخ، ہری اور کالی، لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ علیہ السلام کی مستعمل چادریں اجرک کی طرح مختلف رنگوں پر مشتمل تھیں، لیکن بعینه اجرک کا استعمال ثابت نہیں.
ایک صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے آپ علیہ السلام کو سرخ رنگ کی چادر میں دیکھا، آپ سے زیادہ حسین کوئی نہیں تھا.
حديث البراء قال: “كان رسول الله ﷺ مربوعاً، ولقد رأيته في حلة حمراء، ما رأيت شيئاً قط أحسن منه”. (متفق عليه)
آپ علیہ السلام عید کے دن سرخ چادر پہنتے تھے.
وروى البيهقي في السنن: “أنه عليه الصلاة والسلام كان يلبس يوم العيد بُردةً حمراء”.
کیا آپ علیہ السلام نے خالص سرخ رنگ کی چادر پہنی تھی؟
محدثین فرماتے ہیں کہ اس جیسی روایات میں مقصود ایسی چادر ہوتی ہے جس میں کالے رنگ کی چادر پر سرخ دھاریاں ہوں، یا ہرے رنگ کی چادر پر سرخ دھاریاں، اور اس کو سرخ اس لئے کہا گیا کہ دھاریاں سرخ تھیں.
والمراد بالحلة الحمراء: بُردان من اليمن منسوجان بخطوط حمر مع سود، أو خضر، ووصفت بالحمرة باعتبار ما فيها من الخطوط الحمر.
وقد ذهب إلى هذا عدد من أهل العلم كالحافظ ابن حجر (فتح الباري شرح صحيح البخاري، رقم:5400) وابن القيم رحمه الله تعالى (زاد المعاد: 1/137) والله تعالى أعلم.
امام سفیان ثوری نے بھی یہی نقل کیا ہے.
وكذلك فسر سفيان الثوري الحلة الحمراء في هذا الحديث ببرد الحبرة: حكاه عنه عبدالرزاق، وهو في مسند الإمام أحمد وكتاب الترمذي.
وحينئذ؛ فالحلة الحمراء التي لبسها النبي صلى الله عليه وسلم إنما كانت بردا مخططا فيه خطط حمر، ولم يكن كله أحمر. (ابن رجب فتح الباري)
٣. تیسرا دعوی:
آپ علیہ السلام نے کبھی سندھی کے علاوہ کسی اور زبان میں بات نہیں فرمائی.
سومرو صاحب نے یہ جملہ ہاشم ٹھٹوی رحمه اللہ کی طرف منسوب کتاب سے سنا ہوگا.
حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹویؒ اپنی کتاب ”قوۃ العاشقین“ کے صفحہ نمبر ٢ پر تحریر فرماتے ہیں (جس کا مفہوم ہے) کہ آپﷺ نے سندھ کے ساتھ اپنی رغبت اور محبّت کا اظہار ایک مختصر سندھی جملہ اپنی زبانِ اقدس سے ادا کر کے بھی کیا۔ وہ جملہ تھا: ”ادا! اورے آء! (ترجمہ: بھائی! یہاں آؤ)
سب سے پہلے اس جملے کا آپ علیہ السلام سے ثبوت کسی بھی قسم کی مستند صحیح یا ضعیف روایت میں موجود نہیں.
آپ علیہ السلام کا عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں کلام کرنا:
امام بخاری نے باقاعدہ باب قائم کیا کہ آپ علیہ السلام نے فارسی اور حبشی زبان میں کلام کیا.
جاء في صحيح البخاري قال: باب من تكلم بالفارسية والرطانة، ثم ذكر بسنده عن جابر بن عبدالله قال: قلت: يا رسول الله! ذبحنا بُهَيْمَةً لنا وطحنت صاعًا من شعير، فتعال أنت ونفر فصاح النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ! إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُوْرًا فَحَيَّهَلًا بِكُمْ» الحديث.
اس روایت میں سور کا لفظ یا تو فارسی ہے یا حبشی ہے، جس کا معنی کھانے کے ہے.
ثم ذكر بسند من طريق عبدالله بن المبارك عن أم خالد بنت خالد بن سعيد قالت: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم مع أبي وعليَّ قميص أصفر. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «سَنَهْ سَنَهْ» قال عبدالله: وهي بالحبشية حسنة…..الحديث.
اس روایت میں سنہ سنہ کا لفظ حبشی ہے جس کا معنی خوبصورت کے ہے.
ایک اور ضعیف حدیث میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے حضرت ابوہریرہ سے فارسی کے کچھ الفاظ ارشاد فرمائے کہ ابوہریرہ! کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے؟
يقول أبوهريرة: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم المسجد وأنا أشتكي بطني فقال: «يا أباهريرة أشكنب درد»، قلت: نعم، قال: “قم فصل فإن في الصلاة شفاء”.
بعض محدثین اس کلام کو ابوہریرہ اور مجاہد کے مابین کلام قرار دیتے ہیں.
٤. چوتھا دعوی:
کیا آپ علیہ السلام کی خدمت میں کوئی سندھی وفد آیا تھا؟
آپ علیہ السلام کے زمانے میں کسی سندھی وفد یا شخص کا آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضری کا ثبوت کسی بھی مستند روایت سے نہیں ملتا، البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب جادو ہوا تھا، تو ایک سندھی معالج کا تذکرہ ملتا ہے.
رواية صحيحة في موطأ الإمام مالك أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم كَانَتْ أَعْتَقَتْ جَارِيَةً لَهَا عَنْ دُبُرٍ مِنْهَا [أي تُعْتَق حين وفاة عائشة رضي الله عنها]، ثُمَّ إِنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا بَعْدَ ذَلِكَ اشْتَكَتْ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ تَشْتَكِيَ، ثُمَّ إِنَّهُ دَخَلَ عَلَيْهَا رَجُلٌ سِنْدِيٌّ، فَقَالَ لَهَا أَنْتِ مَطبُوبَةٌ [أي مسحورة]، فَقَالَتْ لَهُ عَائِشَةُ: وَيْلَكَ، مَنْ طَبَّنِي؟ قَالَ: امْرَأَةٌ مِنْ نَعْتِهَا كَذَا وَكَذَا، فَوَصَفَهَا، وَقَالَ: إِنَّ فِي حجْرِهَا الآنَ صَبِيًّا قَدْ بَالَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: ادْعُوا لِي فُلانَةً جَارِيَةً كَانَتْ تَخْدُمُهَا، فَوَجَدُوهَا فِي بَيْتِ جِيرَانٍ لَهُمْ فِي حَجْرِهَا صَبِيٌّ، قَالَتْ: الآنَ حَتَّى أَغْسِلَ بَوْلَ هَذَا الصَّبِيِّ، فَغَسَلَتْهُ ثُمَّ جَاءَتْ، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: أَسَحَرْتِنِي؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَتْ: لِمَ؟ قَالَتْ: أَحْبَبْتُ الْعِتْقَ، قَالَتْ: فَوَاللهِ لا تُعْتَقِينَ أَبَدًا، ثُمَّ أَمَرَتْ عَائِشَةُ ابْنَ أُخْتِهَا أَنْ يَبِيعَهَا مِنَ الأَعْرَابِ مِمَّنْ يُسِيءُ مَلْكَتَهَا، قَالَتْ: ثُمَّ ابْتَعْ لِي بِثَمَنِهَا رَقَبَةً، ثُمَّ أَعْتِقْهَا، فَقَالَتْ عَمْرَةُ: فَلَبِثَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا مَا شَاءَ اللهُ مِنَ الزَّمَانِ، ثُمَّ إِنَّهَا رَأَتْ فِي الْمَنَامِ أَنِ اغْتَسِلِي مِنْ آبَارٍ ثَلاثَةٍ يَمُدُّ بَعْضُهَا بَعْضا، فَإِنَّكِ تُشْفَيْنَ، فَدَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، فَذَكَرَتْ عَائِشَةَ الَّذِي رَأَتْ، فَانْطَلَقَا إِلَى قَنَاةٍ، فَوَجَدَا آبَارًا ثَلاثَةً يَمُدُّ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَاسْتَقَوْا مِنْ كُلِّ بِئْرٍ مِنْهَا ثَلاثَ شُجُبٍ حَتَّى مَلأوا الشُّجُبَ مِنْ جَمِيعِهَا، ثُمَّ أَتَوْا بِذَلِكَ الْمَاءِ إِلَى عَائِشَةَ، فَاغْتَسَلَتْ فِيهِ فَشُفِيَتْ.
خلاصہ کلام
اپنے وطن اور اپنی زبان کی محبت یقینا فطری عمل ہے، لیکن بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے ہم سب پر یہ لازم ہے کہ جب آپ علیہ السلام کی طرف کسی چیز کی نسبت کریں تو اس کی پوری تحقیق کر کے بیان کریں تاکہ آپ علیہ السلام کی طرف جھوٹ کی نسبت نہ ہو.
سوال میں مذکور کوئی بھی دعوی بعینه کسی بھی روایت سے ثابت نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٠ مارچ ٢٠٢٢ کراچی