روضہ مبارک پر دیہاتی کی دعا
سوال
حضرت عمر رضی اللہ عنہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں سرورِ کائنات ﷺ کے روضہٕ اقدس کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے، وہاں روضہ کے سامنے ایک اعرابی (دیہاتی) کھڑا دعا مانگ رہا تھا، حضرت عمرؓ رضی اللہ تعالی عنہ اس کے پیچھے خاموش کھڑے ہو گئے، وہ اعرابی یہ دعا مانگ رہا تھا:
(اے میرے رب! یہ آپ کے حبیب ﷺ ہیں، میں آپ کا بندہ (غلام) ہوں اور شیطان آپ کا دشمن ہے) اے میرے رب! اگر آپ میری مغفرت کر دیں گے تو آپ کے حبیبﷺ خوش ہو جائیں گے اور آپ کا یہ بندہ کامیاب ہو جائے گا اور آپ کا دشمن غمگین اور ذلیل و خوار ہو جائےگا اور اگر آپ نے میری مغفرت نہ فرمائی تو آپ کے حبیبﷺ پریشان ہو جائیں گے، دشمن خوش ہو جائےگا اور یہ بندہ ہلاک ہو جائےگا.. آپ بہت کرم اور عزت و شرف والے اس بات سے بہت بلند و بالا ہیں کہ آپ اپنے حبیب ﷺ کو پریشان، اپنے دشمن کو خوش اور اپنے بندے کو ہلاک کریں.
اے میرے اللہ! شرفاءِ عرب کا دستور ہے کہ جب ان میں سے کسی سردار کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کی قبر پر اس کے تمام غلاموں کو آزاد کر دیا جاتا ہے اور یہ تو تمام جہانوں کے سردار کی قبر مبارک ہے، مجھے ان کی قبر مبارک پر جہنم کی آگ سے آزاد فرما.
حضرت عمرؓ رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی اونچی آواز میں کہا: اے میرے رب! میں بھی یہی دعا مانگتا ہوں جو اس اعرابی نے مانگی ہے، اور اتنے روئے کہ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی.
اس واقعے کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ ان الفاظ کے ساتھ بغیر کسی حوالے کے مختلف سوشل میڈیا ویب سائٹس پر موجود ہے، جس کی نہ کوئی سند نہ کوئی حوالہ مذکور ہے.
البتہ اس واقعے کو “التوصل الی حقیقة التوسل” نامی کتاب میں “الدر المنظم” کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے، جہاں نہ حضرت عمر فاروق کا تذکرہ ہے، نہ ہی عشرہ اخیرہ کا تذکرہ ہے.
روي في الدر المنظم أن أعرابيا وقف على القبر الشريف وقال: اللهم إن هذا حبيبك، وأنا عبدك، والشيطان عدوك، فإن غفرت لي سر حبيبك، وفاز عبدك، وغضب عدوك؛ وإن لم تغفر لي غضب حبيبك، ورضي عدوك، وهلك عبدك.. وأنت يا رب أكرم من أن تُغضب حبيبك وتُرضي عدوك وتُهلك عبدك. اللهم إن العرب إذا مات فيهم سيد أعتقوا على قبره، وإن هذا سيد العالمين فاعتقني على قبره، يا أرحم الراحمين. فقال بعض الحاضرين: يا أخا العرب! إن الله قد غفر لك، بحسن هذا السؤال. (مأخوذ من كتاب: “التوصل إلى حقيقة التوسل” لمؤلفه محمد نسيب الرفاعي)
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس کتاب کے علاوہ یہ واقعہ کہیں بھی کسی سند سے منقول نہیں، لہذا اس واقعے پر کسی کا کوئی حکم بھی منقول نہیں.
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور واقعہ بظاہر درست معلوم نہیں ہوتا، لہذا جب تک اس کی صحت اور سند کا علم نہ ہو، اس کو بیان کرنے اور پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٣١ مئی ٢٠٢١ کراچی