دجلہ کے کنارے خچر کی ٹھوکر
سوال
محترم مفتی صاحب
یہ بات میں نے فیس بک پر پڑھی، کہ یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے!
’’اللہ کی قسم اگر دجلہ کے دور درازعلاقے میں بھی کسی خچر کو راہ چلتے ٹھوکر لگ گئی تو مجھے ڈر لگتا ہے کہیں اللہ تعالیٰ مجھ سے یہ سوال نہ کردیں اے عمر، تونے وہ راستہ ٹھیک کیوں نہیں کرایا تھا؟‘‘
کیا یہ درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور واقعہ کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی صحیح ضعیف یا من گھڑت روایت سے منقول نہیں ملا،
البتہ اس مضمون کے قریب قریب کچھ روایات حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہیں
پہلی روایت:
اہل کوفہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے گورنر کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ میں اس کو تبدیل کرکے تم کو راضی کردونگا ، اور اگر بکری کا بچہ فرات کے کنارے مرجاتا ہے، تو مجھے ڈر ہے کہ مجھ سے پوچھ ہوگی،
أخرجه ابن أبي شيبة في “المصنف” (34486) ، والخلال في “السنة” (396) ، من طريق أسامة بن زيد ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، قَالَ : ” كَانَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ يَسَعَوْنَ بِسَعْدٍ إِلَى عُمَرَ ، فَقَالَ عُمَرُ:” لأُبْدِلَنَّكُمْ حَتَّى تَرْضَوْنَ ، وَلَوْ هَلَكَ حَمَلٌ مِنْ وَلَدِ الضَّأْنِ عَلَى شَاطِئِ الْفُرَاتِ ، ضَائِعًا ؛ لَخَشِيتُ أَنْ يَسْأَلَنِي اللَّهُ عَنْهُ ” .
اس مضمون کے قریب کی روایات مندرجہ ذیل کتب میں بھی منقول ہیں.
1 أخرجه أبو نعيم في “حلية الأولياء” (1/53) ،
2 أخرجه ابن سعد في “الطبقات” (3/350)،
3 أخرجه مسدد في “مسنده” كما في “المطالب العالية” (3988) ، ومن طريق ابن عساكر في “تاريخ دمشق” (44/355( ،
4 أخرجه الطبري في “تاريخه” (4/202)
ان روایات کی اسنادی حیثیت:
یہ تمام روایات سندا اگرچہ ضعیف ہیں، لیکن ان کا مضمون ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہوئے اس روایات کو قابل قبول بناتا ہے .
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور روایت جس میں خچر کا تذکرہ ہے ثابت نہیں، البتہ عنداللہ مخلوقات خداوندی کے متعلق سوال کا ڈر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو تھا، یہ بات درست ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
2 نومبر 2021 کراچی