حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو
سوال :محترم مفتی صاحب ! ہم شروع سے یہ بات سنتے آئے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو ہوا تھا لیکن اب ایک دو علمائےکرام سے سنا ہے کہ آپ علیہ السلام پر جادو والی بات درست نہیں.
برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں.
الجواب باسمه تعالی
حضور ﷺ پر جادو ہونے کی روایات صحیحین میں موجود ہیں اور پوری امت کے محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ روایات صحیح ہیں، لہذا ان روایات کا انکار محض جہالت کے سوا کچھ نہیں.
بخاری اور مسلم شریف کی روایت:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ علیہ السلام پر جادو ہوا اور آپ کو لگتا تھا کہ آپ کچھ کررہے ہیں یا کرچکے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا. ایک دن آپ علیہ السلام نے خوب دعا مانگی اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالی نے میرے معاملے میں مجھے آگاہ فرمادیا کہ میری شفا کس چیز میں ہے. میرے پاس دو آدمی آئے، ایک میرے سر کے پاس بیٹھا اور دوسرا میرے پیروں کے پاس، پھر ایک نے دوسرے سے کہا کہ اس شخص کو کیا بیماری ہے؟ تو دوسرے نے کہا کہ اس پر جادو ہوا ہے، تو پہلے نے پوچھا: کس چیز میں جادو کیا گیا ہے؟ تو دوسرے نے کہا کہ کنگھی اور کنگھی سے نکلے ہوئے بالوں میں اور نر کھجور کے گودے میں، تو پہلے شخص نے پوچھا: وہ کہاں ہے؟ تو دوسرے نے کہا کہ ذروان کنویں میں ہے.
آپ علیہ السلام اس کنویں کی طرف تشریف لے گئے اور پھر جب واپس آئے تو حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا کہ وہاں کی کھجوریں گویا شیطان کے سر تھے (گویا بڑا خوفناک منظر تھا). حضرت عائشہ نے پوچھا: کیا آپ نے وہ چیزیں نکالیں؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: نہیں، مجھے اللہ تعالی نے شفا دی، مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں اس کے تذکرے لوگوں میں عام نہ ہوجائیں (اور لوگ پریشان نہ ہوں)؟ پھر اس کنویں کو بند کردیا گیا.
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهَا قَالَتْ: “سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا يَفْعَلُهُ، حَتَّى كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ دَعَا، وَدَعَا ثُمَّ قَالَ: أَشَعَرْتِ أَنَّ اللهَ أَفْتَانِي فِيمَا فِيهِ شِفَائِي؟ أَتَانِي رَجُلانِ فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلآخَرِ: مَا وجعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ؟ قَالَ: وَمَنْ طَبَّهُ؟ قَالَ: لَبِيدُ بْنُ الأَعْصَمِ. قَالَ: فِيمَاذَا؟ قَالَ: فِي مُشُطٍ وَمُشَاقَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ. قَالَ فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ. فَخَرَجَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ لِعَائِشَةَ حِينَ رَجَعَ: نَخْلُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ. فَقُلْتُ: اسْتَخْرَجْتَهُ؟ فَقَالَ: لا، أَمَّا أَنَا فَقَدْ شَفَانِي اللهُ، وَخَشِيتُ أَنْ يُثِيرَ ذَلِكَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا، ثُمَّ دُفِنَتْ الْبِئْرُ”. [رواه البخاري (3268) ومسلم (2189 [(
حدیث کے چند الفاظ کے معانی:
مطبوب
مسحور
مطبوب
جادو کیا گیا
مُشط: آلة تسريح الشعر.
کنگھی
مشاقة أو مشاطة: ما يسقط من الشعر.
وہ بال جو کنگھی میں پھنس جاتے ہیں
¤ علامہ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ صحیح بخاری میں ابن عیینہ کی جو روایت ہے اس میں اس بات کی وضاحت ہے کہ آپ علیہ السلام کو لگتا تھا کہ گویا آپ اپنے گھر والوں سے ملے ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا تھا.
قلت (أي ابن حجر): وهذا قد ورد صريحاً في رواية ابن عيينة عند البخاري، ولفظه: “حتى كان يرى (أي: يظن) أنه يأتي النساء ولا يأتيهن”. وفي رواية الحميدي: “أنه يأتي أهله ولا يأتيهم”.
¤ قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ جادو کا اثر صرف جسم پر تھا نہ کہ آپ کے علم اور اعتقاد پر.
قال القاضی عياض: فظهر بهذا أن السحر إنما تسلط على جسده وظواهر جوارحه لا على تمييزه ومعتقده.
¤ امام مہلب کا قول ہے کہ آپ علیہ السلام کو شیطانوں سے محفوظ کیا گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ شیطان اپنے وسوسے اور خباثتیں نہیں کرسکتے، کیونکہ صحیح روایات میں ہے کہ شیطان نے آپ علیہ السلام کی نماز کو خراب کرنا چاہا تو اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو اس پر غلبہ عطا فرمایا، اسی طرح جادو آپ کی تبلیغی زندگی کو متاثر نہیں کرسکا، البتہ جیسے سارے امراض جسم کو متاثر کرتے ہیں اسی طرح جادو نے آپ کے جسم کو متاثر کیا کہ کچھ بات چیت یا افعال میں آپ کو دشواری پیش آئی.
وقال المهلب: صون النبي صلى الله عليه وسلم من الشياطين لا يمنع إرادتهم كيده. ففي الصحيح أن شيطاناً أراد أن يفسد عليه صلاته فأمكنه الله منه، فكذلك السحر، ما ناله من ضرره لا يدخل نقصا على ما يتعلق بالتبليغ، بل هو من جنس ما كان يناله من ضرر سائر الأمراض من ضعف عن الكلام، أو عجز عن بعض الفعل، أو حدوث تخيل لا يستمر، بل يزول ويبطل الله كيد الشياطين. (فتح الباري:10/226، 227(
¤ علامہ ابن القیم رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ یہود نے آپ علیہ السلام پر جادو کیا اور آپ علیہ السلام نے اس کا علاج کیا.
بعض لوگ اس کو نبوت کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں حالانکہ معاملہ ایسا نہیں ہے بلکہ جیسے اور امراض لاحق ہوسکتے ہیں ویسے ہی یہ بھی ایک مرض کی طرح لاحق ہوا، اور جیسے زہر نے آپ علیہ السلام پر اثر کیا تھا ایسے ہی جادو نے بھی اثر کیا، لیکن اس جادو نے صرف آپ علیہ السلام کی ظاہری زندگی کو متاثر کیا تھا نہ کہ نبوی امور کو، کیونکہ امور نبوت کی حفاظت کا اللہ تعالی نے وعدہ فرما رکھا ہے.
وقال ابن القيم رحمه الله: هديه صلى الله عليه وسلم في علاج السحر الذي سحرته اليهود به: قد أنكر هذا طائفة من الناس، وقالوا: لا يجوز هذا عليه؟ وظنُّوه نقصاً وعيباً، وليس الأمر كما زعموا، بل هو من جنس ما كان يعتريه من الأسقام والأوجاع، وهو مرض من الأمراض، وإصابته به كإصابته بالسم لا فرق بينهما
وقد ثبت في الصحيحين عن عائشة رضي الله عنها أنها قالت: “سُحِر رسول الله حتى إن كان ليخيَّل إليه أنه يأتي نساءه ولم يأتهن، وذلك أشد ما يكون من السحر”.
قال القاضي عياض: والسحر مرض من الأمراض، وعارض من العلل، يجوز عليه كأنواع الأمراض مما لا يُنكر، ولا يَقدح في نبوته.
وأما كونه يخيَّل إليه أنه فعل الشيء ولم يفعله: فليس في هذا ما يُدخل عليه داخلة في شيء من صدقه؛ لقيام الدليل والإجماع على عصمته من هذا، وإنما هذا فيما يجوز أن يطرأ عليه في أمر دنياه التي لم يُبعث لسببها، ولا فُضِّل من أجلها، وهو فيها عُرضة للآفات كسائر البشر، فغير بعيد أنه يخيَّل إليه مِن أمورها ما لا حقيقة له ثم ينجلي عنه كما كان. (زاد المعاد:4/124(
علامہ عینی رحمه اللہ فرماتے ہیں:
یہاں پر ہم علامہ عینی حنفی کی عبارت پیش کرتے ہیں، جس سے تمام شکوک و شبہات دور ہوجاتے ہیں، عینی حنفی لکھتے ہیں:
ترجمہ: بلاشبہ اس جادو نے نبی اکرم ﷺ کو ضرر پہنچایا، لیکن وحی میں سے کوئی چیز متغیر نہیں ہوئی، نہ ہی شریعت میں کوئی مداخلت ہوئی، پس تخیل اور وہم میں سے ایک چیز رسول اللہ ﷺ کو لاحق ہوئی، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اسی حالت پر نہیں چھوڑا، بلکہ آپ کو اس سے محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کا تدارک بھی کیا، آپ کو جادو کی جگہ بھی بتائی، اس کو نکالنے کا بھی پتہ دیا اور آپ پر سے اس کو ختم کیا، جس طرح کہ بکری کے شانے کے گوشت کے بولنے کے ساتھ اس کے زہر کو آپ سے دور کیا تھا، تیسری بات یہ ہے کہ جادو آپ کے ظاہر پر ہوا تھا، دل و دماغ اور اعتقاد پر نہیں، جادو امراض میں سے ایک مرض ہے اور بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے، دوسری بیماریوں کی طرح آپ کو اس کا لاحق ہونا بھی ممکن ہے، لہٰذا یہ بات آپ کی نبوت میں کوئی عیب پیدا نہیں کرتی، دنیاوی معاملات میں آپ پر اس کا اثر ممکن ہے، دوسرے انسانوں کی طرح دنیاوی معاملات میں آپ ﷺ پر بھی آفات آسکتی ہیں۔ (عمدۃ القاری ازعینی:۱۶؍۹۸(
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
مولانا اشرف علی تھانویؒ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثر اور علاج کو معوذتین کا شان نزول قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: حضرت جبرائیل علیہ السلام سورتیں پڑھنے لگے، ایک ایک آیت پر ایک ایک گرہ کھل گئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل شفا ہوگئی۔
مفتی شفیع صاحب رحمه اللہ فرماتے ہیں:
کسی نبی یا پیغمبر پر جادو کا اثر ہوجانا ایسا ہی ممکن ہے جیسا کہ بیماری کا اثر ہوجانا، اس لئے کہ انبیاء علیہم السلام بشری خواص سے الگ نہیں ہوتے، جیسے ان کو زخم لگ سکتا ہے، بخار اور درد ہوسکتا ہے، ایسے ہی جادو کا اثر بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ بھی خاص اسباب طبعیہ جنات وغیرہ کے اثر سے ہوتا ہے، اور حدیث سے بھی ثابت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ پر جادو کا اثر ہوگیا تھا.
آخری آیت میں جو کفار نے آپ کو “مسحور” کہا اور قرآن نے اس کی تردید کی، اس کا حاصل وہی ہے جس کی طرف خلاصہ تفسیر میں اشارہ کردیا گیا ہے، ان کی مراد درحقیقت “مسحور” کہنے سے مجنون کہنا تھا، اس کی تردید قرآن نے فرمائی ہے، اس لئے حدیثِ سحر اس کے خلاف اور متعارض نہیں۔ (معارف القرآن: ۵؍۴۹۰۔۴۹۱(
مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
لفظِ مسحور سے جو مطلب وہ (کفار) لیتے تھے، اس کی نفی سے یہ لازم نہیں آتا کہ نبی پر کسی قسم کا سحر (جادو) کا کسی درجہ میں عارضی طور پر بھی اثر نہ ہوسکے، یہ آیت مکی ہے، مدینہ میں آپ پر یہود کے جادو کرانے کا واقعہ صحاح میں مذکور ہے، جس کا اثر چند روز تک اتنا رہا کہ بعض دنیاوی کاموں میں کبھی کبھی ذہول (بھول) ہوجاتا تھا۔ (تفسیر عثمان(
جناب محمد حسین نیلوی مماتی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
ایک یہودی نے آپ پر جادو بھی کیا تھا۔ (الادلة المنصوصة از نیلوی:۹۴(
احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
جادو اور اس کی تاثیر حق ہے، دوسرے یہ کہ نبی کے جسم پر جادو کا اثر ہوسکتا ہے۔ (تفسیر نور العرفان، ص:۹۶۵(
جادو کی مدت : یہ جادو کتنے دن رہا؟
اسکے بارے میں علماء کے چند اقوال ہیں:
١ .حافظ ابن حجر نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں چالیس دن مذکور ہے.
فقال الحافظ ابن حجر في فتح الباري: وقع في رواية أبي ضمرة عند الإسماعيلي: فأقام أربعين ليلة.
٢ . ایک دوسری روایت میں ہے کہ چھ ماہ جادو رہا.
وفي رواية وهيب عن هشام عند أحمد: ستة أشهر.
٣ . بعض علماء فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ اثرات چھ ماہ پہلے شروع ہوچکے ہوں اور پھر آخری چالیس دنوں میں پورا جادو ظاہر ہوا ہو.
ويمكن الجمع: بأن تكون الستة أشهر من ابتداء تغير مزاجه، والأربعين يوما من استحكامه.
٤ . علامہ سہیلی کہتے ہیں کہ اسکی مدت کے بارے میں کوئی صحیح روایات ہمارے علم میں نہیں ہیں، البتہ ایک جگہ چھ ماہ کی بات کچھ راجح نظر آئی.
وقال السهيلي: لم أقف في شيء من الأحاديث المشهورة على قدر المدة التي مكث النبي صلى الله عليه وسلم فيها في السحر حتى ظفرت به في جامع معمر: عن الزهري: أنه لبث ستة أشهر. كذا قال، وقد وجدناه موصولا بإسناد الصحيح، فهو المعتمد.
٥ . مسند احمد میں بھی چھ ماہ والی روایت موجود ہے.
مسند الإمام أحمد في تحديد مدة الستة الأشهر، إنما هو من رواية معمر عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة قالت: لبث رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة أشهر يرى أنه يأتي ولا يأتي، فأتاه ملكان….الحديث.
خلاصہ کلام
آپ علیہ السلام پر جادو کے اثرات ہونے کے منکر یا تو صراحتا منکرین حدیث ہیں یا جاوید غامدی کی ذہنیت کے وہ لوگ جو شریعت کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور جو بات ان کی سمجھ میں نہ آئے اس کا انکار کر بیٹھتے ہیں، جیسے ان صحیح روایات کا انکار کردیا ہے، حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ واقعہ پیش آیا تھا اور پھر آپ علیہ السلام کا علاج ہوا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ