تنبیہ نمبر108

حضرت علی اور حضرت زبیر

سوال :مفتی صاحب یہ ایک پوسٹ آئی ہے جس میں ایک روایت کا ذکر ہے کہ آپ علیہ السلام نے حضرت زبیر سے فرمایا کہ تم علی سے لڑوگےاور تم ظالم ہونگے .جنگ جمل کے موقعہ پر جب حضرت زبیر کو حضرت علی نے یہ بات یاد کرائی تو وہ میدان چھوڑ کر چلے گئے  .اس روایت کی تصدیق مطلوب ہے ؟
الجواب باسمه تعالی

جواب سے قبل دو باتوں کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے .

پہلی بات:

مشاجرات صحابہ کے متعلق جمہور امت کا یہی قول ہے کہ ان معاملات پر لب کشائی کے بجائے اللہ تعالی کے حوالے کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی گستاخانہ جملہ سلب ایمان کا سبب بنے.

دوسری بات:

جنگ جمل کا پس منظر ہرگز جنگ کرنا نہیں تھا بلکہ امت مسلمہ میں پیدا شدہ بے اتفاقی کو ختم کرکے صلح پیدا کرنا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کو سامنے لانا اور قصاص لینا مقصود تھا.

جیسا کہ حضرت زبیر نے حضرت عائشہ صدیقہ کے رجوع کے فیصلے پر فرمایا کہ آپ کے ذریعے امت میں صلح آئیگی.

 ويدل على ذلك ما أخرجه أحمد في المسند والحاكم في المستدرك: أن عائشة رضي الله عنها لما بلغت مياه بني عامر ليلاً نبحت الكلاب، قالت: أي ماء هذا؟ قالوا: ماء الحوأب، قالت: ما أظنني إلا راجعة، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لنا: “كيف بإحداكن تنبح عليها كلاب الحوأب”. فقال لها الزبير: ترجعين!! عسى الله عز وجل أن يصلح بك بين الناس.
قال الألباني: إسناده صحيح جداً، صححه خمسة من كبار أئمة الحديث هم: ابن حبان، والحاكم، والذهبي، وابن كثير، وابن حجر (سلسلة الأحاديث الصحيحة رقم 474).

اور جانبین اس جنگ سے ہرگز خوش نہ تھے جیسا کہ روایات میں آتا ہے کہ حضرت علی کو اس جنگ کا سخت افسوس تھا اور حضرت حسن سے کہا کہ کاش اس جنگ کے ہونے سے بیس سال قبل مر چکا ہوتا.

روى ابن أبي شيبة في مصنفه بسند صحيح عن الحسن بن علي قال:  (لقد رأيته – يعني علياً – حين اشتد القتال يلوذ بي ويقول: يا حسن، لوددت أني مت قبل هذا بعشرين حجة أو سنة).

اور حضرت زبیر بھی جنگ کا میدان اور قافلہ چھوڑ کر کنارے پر چلے گئے تھے اور نیند کی حالت میں ان کو شہید کیا گیا اور جب حضرت علی کو خبر دی گئ تو فرمایا کہ زبیر کے قاتل کیلئے جہنم کی آگ ہے.

وقد ترك الزبير القتال ونزل وادياً فتبعه عمرو بن جرموز فقتله وهو نائم غيلة، وحين جاء الخبر إلى علي رضي الله عنه قال: بشر قاتل ابن صفية بالنار.
سوال میں مذکور روایات کی اسنادی حیثیت

یہ روایات مختلف کتابوں میں میں مختلف اسنادوں سے منقول ہے .

مستدرک حاکم کی سند:
 فرواه الحاكم (5575) من طريق مِنْجَاب بْن الْحَارِثِ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَجْلَحِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَزِيدَ الْفَقِيرِ قَالَ مِنْجَابٌ: وَسَمِعْتُ فَضْلَ بْنَ فَضَالَةَ، يُحَدِّثُ بِهِ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ، قَالَ: ” شَهِدْتُ عَلِيًّا وَالزُّبَيْرَ، لَمَّا رَجَعَ الزُّبَيْرُ عَلَى دَابَّتِهِ يَشُقُّ الصُّفُوفَ، فَعَرَضَ لَهُ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ ، فَقَالَ: مَا لَكَ؟ فَقَالَ: ذَكَرَ لِي عَلِيٌّ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: (لَتُقَاتِلَنَّهُ وَأَنْتَ ظَالِمٌ لَهُ) فَلَا أُقَاتِلُهُ، قَالَ: وَلِلْقِتَالِ جِئْتَ؟ إِنَّمَا جِئْتَ لِتُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ وَيُصْلِحُ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ بِكَ، قَالَ: قَدْ حَلَفْتُ أَنْ لَا أُقَاتِلَ، قَالَ: فَأَعْتِقْ غُلَامَكَ جِرْجِسَ وَقِفْ حَتَّى تُصْلِحَ بَيْنَ النَّاسِ، قَالَ: فَأَعْتَقَ غُلَامَهُ جِرْجِسَ وَوَقَفَ فَاخْتَلَفَ أَمَرُ النَّاسِ، فَذَهَبَ عَلَى فَرَسِهِ “.

پہلی سند میں اجلح الکندی ہے جو کہ ضعیف راوی ہے.

 ولمنجاب بن الحارث فيه إسنادان، وهما ضعيفان، ففي الأول منهما الأجلح الكندي والد عبد الله، وهو ضعيف، ضعفه أحمد، وابن معين، وأبو حاتم والنسائي، وغيرهم .
انظر “التهذيب” (1/165-166) .

بہیقی کی سند میں یزید الفقیر اپنے والد سے نقل کرتے ہیں اور وہ مجہول ہے.

وقد رواه البيهقي في “الدلائل” (6/414) من هذا الطريق عن يزيد الفقير عن أبيه، فزاد: عن أبيه، وأبوه مجهول لا يعرف، وهذه علة أخرى في هذا السند.

ایک اور سند میں فضل بن فضالہ ہے جو مجہول ہے.

وفي الإسناد الثاني فضل بن فضالة، قال الشيخ الألباني في “الصحيحة” (6/158): “لم أجد له ترجمة”.

حاکم کی ایک اور سند میں ابوقلابہ ہے جس کے بارے میں دارقطنی کہتے ہیں کہ بہت غلطیاں کرتا تھا.

ثم رواه الحاكم (5574) من طريق أبي قِلَابَةَ عَبْد الْمَلِكِ بْن مُحَمَّدِ الرَّقَاشِيّ،
وأبو قلابة ضعيف، قال الدارقطني: صدوق كثير الخطأ في الأسانيد والمتون، كان يحدث من حفظه فكثرت الأوهام في روايته.
” تهذيب التهذيب” (6 /372)

ایک اور طریق میں محمد بن سلیمان مجہول ہے.

ورواه الحاكم (5573) من طريق مُحَمَّد بْن سُلَيْمَانَ الْعَابِد، ثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي حَازِمٍ به.
وقال الذهبي في تلخيصه: ” فيه نظر “.
وعلته محمد بن سليمان، فهو مجهول.

ابن ابی شیبہ نے روایت نقل کی تو اس میں عبدالسلام راوی مجہول بھی ہے اور اس کا سماع حضرت علی اور حضرت زبیر سے ثابت نہیں.

وقد رواه ابن أبي شيبة (15/282) حدثنا يعلى بن عبيد، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن عبد السلام رجل من بني حية،.. فذكره .
وعبد السلام هذا مجهول أيضا، كما قال الذهبي في “الميزان” (2/619)، ولم يسمع من الزبير ولا من عليّ، كما قال البخاري: ” لا يثبت سماعه منهما “.
“الضعفاء” للعقيلي (3 /65)

ابن ابی شیبہ نے روایت نقل کی اس کی سند میں شریک ابن عبداللہ القاضی ہے جس کا حافظہ کمزور اور شیعہ تھا اور وہ اسود بن قیس سے اور اسود بن قیس ایک مجہول راوی سے نقل کررہا ہے۔

 ورواه ابن أبي شيبة (7/ 545) من طريق شَرِيك، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: ” حَدَّثَنِي مَنْ رَأَى الزُّبَيْرَ يَقْعَصُ الْخَيْلَ الخ
وهذا ضعيف أيضا ، شريك هو ابن عبد الله القاضي ، ضعيف سيء الحديث ، وفيه تشيع معروف . انظر”الميزان” (2/270-272)
ثم هو يرويه عن الأسود بن قيس عن رجل مجهول

اس روایت کے تمام اسانید بہت کمزور ہیں جس کی وجہ سے امام عقیلی نے فرمایا کہ یہ متن کسی بھی ایسی سند سے منقول نہیں جس کو ثابت کہا جاسکے۔

 وقد قال العقيلي: ” لَا يُرْوَى هَذَا الْمَتْنُ مِنْ وَجْهٍ يَثْبُتُ “
انتهى من “الضعفاء” (3 /65) .
خلاصہ کلام

مشاجرات صحابہ تاریخ کا وہ حصہ ہے کہ جس کا انکار ممکن نہیں لیکن اس معاملے میں افراط اور تفریط سے بچنا بہت ضروری ہے اور بلاتحقیق کوئ ایسی بات کرنا نہ صرف دشمنان صحابہ کے پروپیگنڈے کو پھیلانا ہے بلکہ ناموس صحابہ پر انگلی اٹھانے کے مترادف ہے لہذا اس سے اجتناب لازم ہے اور سوال میں مذکور واقعہ اس قدر ضعیف ہے کہ اس کو بطور دلیل پیش کرنا درست نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں