اہل بیت کی محبت پر شہادت کی موت
سوال: ایک روایت سنی ہے کہ جو شخص اہل بیت سے محبت کرےگا اس کو شہادت والی موت حاصل ہوگی. اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے
الجواب باسمه تعالی
یہ روایت مختلف تفاسیر میں اس آیت:
قل لا اسئلكم عليه أجرا إلا المودة فى القربى
کے ذیل میں مختلف مفسرین نے ذکر کی ہے، جیسے امام قرطبی نے مختصرا اور امام زمخشری نے تفصیلا اس روایت کو نقل کیا ہے اور دیگر تمام مفسرین نے اس روایت کو زمخشری سے نقل کیا ہے.
روایت کا ترجمہ:
جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی محبت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوگا وہ شہادت کا درجہ پائےگا اور اسکی مغفرت ہوجائےگی اور وہ توبہ کرنے والوں اور کامل ایمان والوں میں شمار ہوگا اور موت کے فرشتے اور منکر نکیر اسکو جنت کی خوشخبری دینگے اور اسکو دلہن کی طرح جنت کی طرف لے جایا جائےگا اور رحمت کے فرشتے اسکی قبر کی زیارت کرینگے اور وہ اہل سنت والجماعت میں شمار ہوگا، اور جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے بغض کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوگا وہ قیامت کے دن اس حال میں لایا جائےگا کہ اسکی پیشانی پر “اللہ کی رحمت سے مایوس” لکھا ہوا ہوگا اور وہ کفر کی حالت میں مرےگا اور جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکےگا.
ألا ومن مات على حب آل محمد، مات شهيداً، ألا ومن مات على حب آل محمد، مات مغفورا له، ألا ومن مات على حب آل محمد، مات تائبا، ألا ومن مات على حب آل محمد، مات مؤمنا مستكمل الإيمان، ألا ومن مات على حب آل محمد، بشره ملك الموت بالجنة، ثم منكر ونكير، ألا ومن مات على حب آل محمد، يزف إلى الجنة كما تزف العروس إلى بيت زوجها، ألا ومن مات على حب آل محمد، جعل الله زوار قبره ملائكة الرحمة، ألا ومن مات على حب آل محمد، مات على السنة والجماعة، ألا ومن مات على بغض آل محمد جاء يوم القيامة مكتوب بين عينيه (آيس من رحمة الله) ألا ومن مات على بغض آل محمد، مات كافرا، ألا ومن مات على بغض آل محمد، لم يشم رائحة الجنة”.
[ينابيع المودة (1/21، 2/18 و 88)
الصواعق المحرقة، (ص: 232) فرائد السمطين].
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
علامہ البانی نے السلسلة الضعیفة والموضوعة میں اس روایت پر تفصیلی بات کی ہے کہ یہ روایت من گھڑت روایات میں سے ہے.
امام زمخشری نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو نقل کیا ہے اور ان کے بعد تمام سنی اور شیعہ راوی اس روایت کو زمخشری کے حوالے سے نقل کرتے ہیں.
قال الألباني في “السلسلة الضعيفة والموضوعة” (10/579): باطل موضوع.
أورده الزمخشري في تفسير آية المودة هكذا بتمامه.
امام زمخشری نے یہ روایت اپنی تفسیر میں مرسلا نقل کی ہے.
وأرسلها الزمخشري في تفسير الآية من “كشافه” إرسال المسلمات.
علمائے امت کی نظر میں امام زمخشری اور ان کی تفسیر:
زمخشری خوارزم کی ایک بستی میں پیدا ہوئے، ان کا نام محمود تھا، 538ھ میں انتقال ہوا. یہ معتزلہ کے بڑے داعیوں میں سے تھے.
☆ معتزلہ وہ لوگ ہیں جو خلق قرآن کے قائل اور قیامت کے دن رؤیت باری تعالی کے منکر ہیں.
الزمخشري صاحب تفسير “الكشّاف” نسبة إلى “زَمَخْشَر” وهي قرية كبيرة من قرى “خوارزم”، واسمه محمود، وكنيته أبوالقاسم، توفي عام 538هـ، وهو من دعاة الاعتزال الكبار، والمعتزلة فرقة مبتدعة من أبرز عقائدها: القول بخلق القرآن، وبنفي رؤية الله تعالى يوم القيامة، والقول بتعطيل الصفات، والقول بتخليد مرتكب الكبيرة في النار في الآخرة إذا لقي الله تعالى ولم يتب منها أو لم يقم عليه الحد في الدنيا، وغير ذلك
امام ذہبی فرماتے ہیں کہ زمخشری بڑے عالم اور معتزلہ کے بڑے ہیں اور اپنے مذہب کے داعی تھے… (اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے).
قال الذهبي رحمه الله: “الزمخشري، العلامة، كبير المعتزلة، أبوالقاسم محمود بن عمر بن محمد الزمخشري الخوارزمي النحوي، صاحب “الكشاف” و”المفصل” (في النحو).
وكان داعية إلى الاعتزال، الله يسامحه. [“سير أعلام النبلاء” (20/151، 156)].
تفسیر کشاف للزمخشری:
١. علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ ان کی تفسیر بدعات سے بھری ہوئی ہے اور معتزلہ کے طریقہ کار کے مطابق اس میں مختلف صفات باری تعالی کا انکار ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کتاب میں موضوع روایات بھی بکثرت موجود ہیں.
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله: وأما “الزمخشري” فتفسيره محشو بالبدعة وعلى طريقة المعتزلة من إنكار الصفات والرؤية والقول بخلق القرآن، وأنكر أن الله مريد للكائنات وخالق لأفعال العباد، وغير ذلك من أصول المعتزلة… وهذه الأصول حشا بها كتابه بعبارة لا يهتدي أكثر الناس إليها ولا لمقاصده فيها، مع ما فيه من الأحاديث الموضوعة، ومن قلة النقل عن الصحابة والتابعين. [“مجموع الفتاوى” (1/386، 387)].
٢. امام ذہبی فرماتے ہیں کہ زمخشری اگرچہ نیک آدمی تھے لیکن معتزلہ کے داعیوں میں سے تھے، لہذا ان کی کتاب “کشاف” سے دور رہنے کی ضرورت ہے.
وقال الذهبي رحمه الله في ترجمة الزمخشري: صالح، لكنه داعية إلى الاعتزال (أجارنا الله) فكن حذراً من “كشَّافه”. [“ميزان الاعتدال” (4/78)].
٣. زمخشری کی تفسیر کشاف ان تفاسیر میں سے ہے جن میں صحیح، ضعیف، موضوع ہر طرح کی روایات موجود ہیں، اسی وجہ سے امام زیلعی اور ان کے بعد ابن حجر رحمه اللہ نے ان کی تفسیر کی روایات کی تحقیق کی ہے اور اس (سوال میں مذکور) روایت پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے.
ولذلك وضع عليه الحافظ الزيلعي تخريجاً لأحاديثه، ثم لخصه الحافظ ابن حجر؛ وهو المسمى بـ”الكافي الشاف في تخريج أحاديث الكشاف”، وقد حكم فيه على هذا الحديث بالوضع، فأصاب، قال (4/145/354): رواه الثعلبي: أخبرنا عبدالله بن محمد بن علي البلخي: حدثنا يعقوب ابن يوسف بن إسحاق: حدثنا محمد بن أسلم: حدثنا يعلى بن عبيد عن إسماعيل بن قيس عن جرير بطوله…..
وآثار الوضع عليه لائحة.
ومحمد ومن فوقه أثبات.والآفة فيه ما بين الثعلبي ومحمد.
خلاصہ کلام
یہ روایت اگرچہ تفاسیر میں نقل کی گئی ہے لیکن جیسا کہ (مذکورہ بالا تفصیل سے) معلوم ہوچکا کہ جن کتابوں میں یہ روایت مذکور ہے ان کتابوں کی محدثین کی نظر میں کوئی خاص اہمیت نہیں اور نہ ہی اس روایت کی کوئی متصل صحیح سند منقول ہے، لہذا اس روایت کو آپ علیہ السلام کی ذات کی طرف منسوب کرنا ہرگز درست نہیں ہے
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ