مسجد نبوی کی چالیس نمازیں
سوال: مسجد نبوی میں چالیس نمازوں کے متعلق مختلف باتیں سننے میں آتی ہیں، کوئی اس کا انکار کرتا ہے اور کوئی اس کی ترغیب دیتا ہے…کیا اس کی وضاحت کسی روایت میں موجود ہے؟
اسکے بارے میں تحقیق مطلوب ہے.
الجواب باسمه تعالی
مسجد نبوی میں چالیس نمازوں کے متعلق روایات تو موجود ہیں:
مسند احمد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: “جو شخص میری مسجد میں چالیس نمازیں اس طرح پڑھے کہ کوئی نماز نہ چھوٹے تو اس کیلئے دو خلاصیاں لکھی جاتی ہیں: ایک جہنم سے خلاصی اور ایک نفاق سے آزادی”.
هذا الحديث رواه أحمد (12173) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَن النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: “مَنْ صَلَّى فِي مَسْجِدِي أَرْبَعِينَ صَلاةً لا يَفُوتُهُ صَلاةٌ كُتِبَتْ لَهُ بَرَاءَةٌ مِن النَّارِ، وَنَجَاةٌ مِن الْعَذَابِ، وَبَرِئَ مِن النِّفَاقِ”. (وهو حديث ضعيف).
– رواه أحمد، وعبدالله بن أحمد في زياداته (3/155) والطبراني في الأوسط (5/325 رقم 5444) من طريق الحكم بن موسى، ثنا عبدالرحمن بن أبي الرِّجال، عن نُبَيْط بن عمر، عن أنس مرفوعا.
– وقال الطبراني: لم يرو هذا الحديث عن أنس إلا نبيط بن عمر، تفرد به عبدالرحمن بن أبي الرجال.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند پر محدثین کرام کی رائے دو طرح کی ہیں:
● اس سند کو درست قرار دینے والے:
١. علامہ ہیثمی نے اس روایت کی سند کے راویوں کو ثقات قرار دیا.
قال الهيثمي في مجمع الزوائد بعد أن أورد هذا الحديث: رواه أحمد والطبراني في الأوسط ورجاله ثقات.
٢. حافظ منذری نے اس کے راویوں کو صحیح کے رواة قرار دیا ہے.
وقال الحافظ المنذري في الترغيب والترهيب: رواه أحمد ورواته رواة الصحيح، والطبراني في الوسط، وهو عند الترمذي بغير هذا اللفظ.
٣. ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس روایت کے راوی نبیط کو ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے.
وقال ابن حجر: نبيط بن عمر ذكره ابن حبان في الثقات.
٤. شیخ عطیہ محمد سالم رحمه اللہ (جو ابن باز کے شاگرد ہیں اور مسجد نبوی میں سابق مدرس تھے انہوں) نے تفسیر “اضواء البیان” میں ضعیف کہنے والوں پر رد کیا ہے کہ جب امام ھیثمی، منذری، بیهقی اور ابن حجر رحمہم اللہ نے اس راوی کو ثقہ قرار دیا ہے تو اب اس کو ضعیف قرار دینا قطعا کسی کیلئے مناسب نہیں.
قال عطية محمد سالم في “أضواء البيان في تفسير القرآن بالقرآن” ردا على من ضعف سند هذا الحديث: اجتمع على توثيق نبيط كل من ابن حبان والمنذري والبيهقي وابن حجر، ولم يجرحه أحد من أئمة هذا الشأن، فمن ثم لا يجوز لأحد أن يطعن ولا أن يضعف من وثقته أئمة معتبرون ولم يخالفهم إمام من أئمة الجرح والتعديل.
● اس روایت کو ضعیف قرار دینے والے:
١. علامہ البانی اور ابن باز رحمہما اللہ نے اس روایت کو ضعیف فرمایا، اور نبیط بن عمر (کے احوال) کے بارے میں جہالت کی وجہ سے اس کو منکر قرار دیا ہے کیونکہ نبیط کے بارے میں کسی بھی جگہ حالات کی تفصیل نہیں ملتی، لہذا جنہوں نے نبیط کو ثقہ قرار دیا ہے انہوں نے ابن حبان کی توثیق پر اعتماد کیا ہے حالانکہ ابن حبان توثیق میں تساہل کرتے ہیں، دوسری بات یہ ہے کہ انس بن مالک سے روایت نقل کرنے والے تمام راوی اس روایت کو مسجد نبوی کی قید کے بغیر نقل کرتے ہیں، صرف نبیط نے “مسجدی” کا لفظ بڑھایا ہے، تو گویا یہ ثقات کی مخالفت ہے جو نکارت کا سبب بنتی ہے.
قلت: نبيط بن عمر لم يرو عنه إلا عبدالرحمن، وذكره ابن حبان في الثقات على قاعدته في التساهل، وقد تفرد به، وخالف الرواة الآخرين عن أنس الذين لم يذكروا التخصيص في المسجد النبوي.
● شیخ ابن باز کا قول:
وقال سماحة الشيخ في مجموع فتاويه (26/285): هو حديث ليس بصحيح، وإن صححه بعضهم فهو حديث ضعيف.
اس روایت کے شواہد:
اس روایت کے قریب المعنی روایات حضرت عمر، ابوہریرہ، ابن عباس اور ابوکاہل رضی اللہ عنہم سے منقول ہیں، البتہ بعض روایات میں مسجد نبوی کا تذکرہ نہیں بلکہ مطلقا چالیس نمازوں کو پڑھنے کی فضیلت ہے.
وفي الباب عن أنس، وعمر، وأبي هريرة، وابن عباس، وأبي كاهل، بسياق عام ليس فيه تخصيص المسجد النبوي.
صحیح روایت کے الفاظ:
جو شخص چالیس دن تک تمام نمازوں کو اس طرح (باجماعت) ادا کرے کہ تکبیر اولی فوت نہ ہو تو اس کیلئے دو پروانے لکھے جاتے ہیں: ایک نفاق سے بری ہونے کا اور دوسرا جہنم سے آزادی کا.
وهذا الموقوف رواه الترمذي (241) وعبدالرزاق (1/528) وبحشل في تاريخ واسط (ص65-66) والدولابي في الكنى (2/50) وابن عدي (2/402، 3/19) والبيهقي في الشعب (6/162) من طرق عن أنس رضي الله عنه قال: “من لم تفته الركعة الأولى من الصلاة أربعين يوما كتبت له براءتان: براءة من النار، وبراءة من النفاق”
خلاصہ کلام
چالیس نمازوں کے متعلق اگرچہ اقوال مختلف ہیں لیکن جہاں متقدمین اور متاخرین کے درمیان (کسی راوی پر) جرح اور تعدیل کے بارے میں اختلاف آجائے اور معاملہ فضائل کے باب میں ہو تو پھر وہاں متقدمین کے قول اور تعدیل کو مقدم کیا جاتا ہے بشرطیکہ راوی پر کذاب (یعنی جھوٹا ہونے) کا الزام نہ ہو.
لہذا اس روایت کو اگر ضعیف تسلیم کر بھی لیا جائے تب بھی فضائل کے باب میں اسکے بیان کرنے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
یکم اگست ٢٠١٨
المکة المكرمة