قربانی فرد پر یا گھر پر
سوال: بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر ایک فیملی ایک قربانی کرلے تو یہ قربانی پوری فیملی کے تمام افراد کی طرف سے کافی ہو جاتی ہے جبکہ ہم تو شروع سے سنتے آئے ہیں کہ ہر صاحب نصاب پر الگ قربانی لازم ہے
اس بات کی وضاحت مطلوب ہے
الجواب باسمه تعالی
قربانی کے متعلق فقہائے امت کا کچھ امور میں اختلاف چلتا ہوا آرہا ہے.
قربانی واجب ہے یا سنت:
١. امام ابوحنیفہ، امام احمد بن حنبل (ایک قول کے مطابق) اور علامہ ابن تیمیہ کے نزدیک قربانی ہر صاحب استطاعت کے ذمے واجب ہے.
وذهب الحنفية، والإمام أحمد في رواية اختارها شيخ الإسلام ابن تيمية: إلى وجوبها على الموسر.
٢. امام شافعی، امام ابویوسف وغیرہ فقہاء کے نزدیک قربانی سنت ہے.
وفي المجموع للنووي: مذهبنا أنها سنة مؤكدة في حق الموسر، ولا تجب عليه.
• امام محمد نے امام ابوحنیفہ رحمه اللہ کے قول کی تشریح کی ہے کہ قربانی ہر صاحب نصاب مقیم پر واجب ہے، مسافر پر نہیں.
وقال محمد بن الحسن: هي واجبة على المقيم بالأمصار، والمشهور عن أبي حنيفة أنه إنما يوجبها على مقيم يملك نصابا.
علامہ ابن حجر کا اس موضوع پر تبصرہ:
اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ قربانی اسلام کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے.
١. شوافع اور جمہور علمائےکرام اس کو سنت مؤکدہ علی الکفایہ کہتے ہیں.
٢. ایک قول فرض کفایہ کا بھی ہے.
٣. امام ابوحنیفہ اس کو ہر صاحب نصاب مقیم پر واجب قرار دیتے ہیں.
٤. امام مالک سے بھی ایسی ہی روایت منقول ہے، مگر اس میں مقیم کی شرط مذکور نہیں.
– یہی قول امام اوزاعی، ربیعہ اور لیث سے بھی منقول ہے.
٥. امام احمد کہتے ہیں کہ باوجود قدرت کے قربانی کا چھوڑنا مکروہ ہے.
٦. امام محمد کہتے ہیں کہ یہ ایسی سنت ہے جس کا چھوڑنا درست نہیں.
وفي فتح الباري لابن حجر في شرحه لباب سنة الأضحية، قال رحمه الله: ولا خلاف في كونها من شرائع الدين، وهي عند الشافعية والجمهور سنة مؤكدة على الكفاية.
– وفي وجه للشافعية: من فروض الكفاية.
– وعن أبي حنيفة: تجب على المقيم الموسر.
– وعن مالك مثله في رواية، لكن لم يقيد بالمقيم.
– ونقل عن الأوزاعي وربيعة والليث مثله.
– وخالف أبويوسف من الحنفية وأشهب من المالكية، فوافقا الجمهور.
– وقال أحمد: يكره تركها مع القدرة، وعنه واجبة.
– وعن محمد بن الحسن: هي سنة غير مرخص في تركها.
– قال الطحاوي: وبه نأخذ.
قربانی کے متعلق روایات:
جن روایات سے وجوب معلوم ہوتا ہے:
● ١. پہلی روایت:
جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری مسجد میں نہ آئے.
قوله صلى الله عليه وسلم: “من وجد سعة فلم يضح فلا يقربن مصلانا”. (رواه أحمد وابن ماجه، وصححه الحاكم من حديث أبي هريرة).
قال في “فتح الباري”: ورجاله ثقات.
● ٢. دوسری روایت:
آپ علیہ السلام نے عرفات میں فرمایا کہ اے لوگوں! ہر گھر والوں پر قربانی لازم ہے.
قوله صلى الله عليه وسلم وهو واقف بعرفة: “ياأيها الناس! إن على أهل كل بيت أضحية في كل عام وعتيرة”.
قال في “الفتح”: أخرجه أحمد والأربعة بسند قوي.
● ٣. تیسری روایت:
آپ علیہ السلام نے فرمایا: جس شخص نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کی ہے وہ دوبارہ قربانی کرلے.
قوله صلى الله عليه وسلم: “من كان ذبح قبل أن يصلي فليذبح مكانها أخرى، ومن لم يكن ذبح حتى صلينا فليذبح باسم الله”. (متفق عليه).
جن روایات سے سنت ہونا معلوم ہوتا ہے:
● روایت نمبر١:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ چیزیں مجھ پر لازم ہیں اور تمہارے لئے نفل ہیں: قربانی، وتر کی نماز اور چاشت کی دو رکعتیں.
هن على فرائض ولكم تطوع: النحر، والوتر، وركعتا الضحى”. (أخرجه الحاكم والبزاز).
● روایت نمبر ٢:
آپ علیہ السلام دو جانور عید کے دن ذبح فرماتے تھے، ایک جانور کو ذبح فرمانے کے بعد فرماتے کہ اے اللہ! یہ جانور میری تمام مسلمان امت کی طرف سے، پھر دوسرا جانور اپنی طرف سے ذبح فرماتے.
عن على بن الحسين عن أبي رافع رضي الله عنه أن النبي صلي الله عليه وسلم كان إذا ضحى اشترى كبشين أقرنين سمينين أملحين، فإذا صلى وخطب أتي بأحدهما وهو قائم في مصلاه فذبحه بنفسه بالمدية، ثم يقول: اللهم هذا عن أمتي جميعا من شهد لك بالتوحيد وشهد لي بالبلاغ، ثم يؤتي بالآخر فيذبحه بنفسه ويقول: هذا عن محمد، وآل محمد. (أخرجه أحمد والبزاز).
قال في مجمع الزوائد: وإسناده حسن.
● شیخ ابن عثيمین کی بات کا خلاصہ:
ان روایات کو مدنظر رکھ کر علامہ ابن عثيمین نے لکھا ہے کہ علماء کے اقوال اور ان کے دلائل تقریبا برابر ہیں اور احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ قربانی کو چھوڑا نہ جائے کیونکہ اس میں اللہ تعالی کی تعظیم ہے اور بالیقین ذمے سے خلاصی ہے.
ولذلك قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله في خاتمة رسالة له مطولة في “أحكام الأضحية والذكاة”: هذه آراء العلماء وأدلتهم سقناها ليبين شأن الأضحية وأهميتها في الدين، والأدلة فيها تكاد تكون متكافئة، وسلوك سبيل الاحتياط أن لا يدعها مع القدرة عليها، لما فيها من تعظيم الله وذكره وبراءة الذمة بيقين.
تمام گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی:
اس مسئلے کی بنیاد وہی ہے کہ جن حضرات کے نزدیک قربانی واجب نہیں ان کے نزدیک گھر میں سے کسی ایک فرد کا قربانی کرلینا پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے اور جن حضرات کے نزدیک قربانی واجب ہے ان کے نزدیک ہر فرد پر الگ الگ قربانی لازم ہوگی.
جو لوگ اشتراک کے قائل ہیں وہ بھی اس بات کو تو مانتے ہیں کہ یہ شرکت ثواب میں ہے نہ کہ قربانی کی ادائیگی میں، لہذا وہ حضرات بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ہر صاحب استطاعت کو اپنی طرف سے الگ قربانی کرنی چاہیئے.
جیسا کہ روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے ایک مینڈھا ذبح کیا اور فرمایا کہ یااللہ! یہ محمد اور آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما.
لما رواه مسلم عَنْ عَائِشَةَ أَنّ رَسُولَ اللہ صلى الله عليه وسلم أَمَرَ بِكَبْشٍ أَقْرَنَ، فَأُتِيَ بِهِ لِيُضَحّيَ بِهِ. فَقَالَ لَهَا: “يَا عَائِشَةُ! هَلُمّي الْمُدْيَةَ” ثُمّ أَخَذَهَا، وَأَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ ثُمّ ذَبَحَهُ؛ ثُمّ قَالَ: “بِاسْمِ اللہِ؛ اللهُمّ تَقَبّلْ مِنْ مُحَمّدٍ وَآلِ مُحَمّدٍ؛ وَمِنْ أُمّةِ مُحَمّدٍ” ثُمّ ضَحّىَ بِه.
اس روایت میں ایک جانور کے ثواب میں سارے گھر کی شرکت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ایک گھر کے سارے افراد مل کر ایک جانور کی قیمت جمع کرکے ایک قربانی کریں اس بات کو کسی طور پر بھی علماء نے درست قرار نہیں دیا ہے.
فمقتضى هذا الحديث: هو إجزاء الأضحية عن أهل البيت الواحد إذا ملكها المضحي وذبحها عنه وعن أهل بيته، أما اشتراك أهل البيت الواحد في ثمن الشاة فلم يكن من هدي النبي صلى الله عليه وسلم ولا الصحابة.
اسی طرح امام مالک کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے مال سے جانور خرید کر اس کو ذبح کرے اور ثواب میں اہل خانہ کو شامل کرلے تو ایسا کرنا درست ہے.
قال الإمام مالك: وإن اشترى الرجل أضحيته بمال نفسه، وذبحها عن نفسه وعن أهل بيته فجائز، لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعل ذلك.
اور امام مالک سے یہ بھی منقول ہے کہ وہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے عمل کے مقابلے میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے عمل کو پسند کرتے تھے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ گھر کے تمام افراد کی طرف سے الگ الگ قربانی کیا کرتے تھے جبکہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سب کی طرف سے ایک ہی قربانی کے قائل تھے.
واستحب مالك حديث ابن عمر لمن قدر دون حديث أبي أيوب الأنصاري.
– قال عبدالحق: حديث ابن عمر أنه كان لا يضحي عمن في البطن، وأما ما كان في غير البطن، فيضحي عن كل نفس شاة.
– وحديث أبي أيوب: كنا نضحي بالشاة الواحدة يذبحها الرجل عنه، وعن أهل بيته، ثم تباهى الناس فصارت مباهاة.
اسی بات کو شیخ ابن عثیمین نے بھی فرمایا کہ ثواب میں شرکت کی کوئی حد نہیں ہے کہ آپ علیہ السلام نے پوری امت کی طرف سے ایک دنبہ ذبح کیا.
وقال الشيخ ابن عثيمين في “الشرح الممتع” (5/275): التشريك في الثواب لا حصر له، فها هو النبي صلى الله عليه وسلم ضحى عن كل أمته، وها هو الرجل يضحي بالشاة الواحدة عنه وعن أهل بيته، ولو كانوا مئة.
امام مالک رحمه اللہ سے یہ بھی منقول ہے کہ جن لوگوں کو قربانی میں اپنے ساتھ شریک کرسکتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کا نفقہ اس شخص پر لازم ہو.
امام محمد نے اس میں یہ اضافہ کیا کہ اس کے حاجتمند والدین اور ضرورتمند اولاد اس میں شامل ہیں.
قال مالك رحمه الله في أهل بيته الذين يشركونه في أضحيته: هم أهل نفقته قليلا كانوا أو كثيرا.
– زاد محمد عن مالك: وولده ووالديه الفقيرين.
مواہب الجلیل میں بھی لکھا ہے کہ یہ شرکت فقط اجر میں ہے اسلئے سات سے زائد افراد کو اس میں شریک کیا جاسکتا ہے.
قال فی مواهب الجليل في شرح مختصر خليل (3/239): لا شرك إلا في الأجر، وإن أكثر من سبعة إن سكن معه.
اسی طرح “مدونہ الکبری” میں منقول ہے کہ اگر گائے، بکری یا اونٹ اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربان کیا جائے تو درست ہوگا اگرچہ یہ سات سے زائد ہوں اور اگر ہر فرد کی طرف سے الگ الگ قربانی کی جائے تو یہی بہتر ہے.
قال في المدونة: وإن ضحى بشاة أو بعير أو بقرة عنه وعن أهل بيته أجزاهم، وإن كانوا أكثر من سبعة أنفس وأحب إلي إن قدر أن يذبح عن كل نفس شاة.
ایک (قربانی کافی ہونے والی) روایت کی توجیہات:
جن روایات سے ایک قربانی کا ایک پورے گھرانے کیلئے کافی ہونا سمجھ میں آتا ہے ان روایات کی علمائےکرام نے مختلف توجیہات فرمائی ہیں:
١. یہ کہ غربت کا زمانہ تھا لہذا گھر میں ایک صاحب استطاعت پورے گھر کی طرف سے قربانی کرلیتا تھا.
٢. اس سے ثواب میں شرکت مراد ہے جیسا کہ اوپر مفصلا ذکر کیا گیا.
٣. یہ ایک صحابی ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا عمل ہے کہ جس کے مقابلے میں دوسرے صحابی ابن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل (یعنی گھر کے ہر فرد کی طرف سے الگ الگ قربانی کرنا) ثابت ہے.
خلاصہ کلام
اس مسئلے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے سے ہی اختلاف رہا ہے، البتہ اس بات پر امت کا اتفاق ہے کہ جس کے پاس وسعت ہو وہ کسی طور پر بھی قربانی نہ چھوڑے کیونکہ قربانی اسلام کا شعار اور اسکی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٥ اگست ٢٠١٨
مکۃالمکرمہ