موت کے وقت کی سختی دور کرنے کا نسخہ
سوال: ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب حضوراکرم ﷺ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ علیہ السلام نے عزرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ: “کیا میری امّت کو موت کی تکلیف برداشت کرنی پڑےگی؟” تو فرشتے نے عرض کیا: جی ہاں، تو آپ علیہ السلام کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، آپ کی اس حالت کو دیکھ کر اللہ رب العزت نے فرمایا کہ “اے محمد! اگر آپ کی امّت ہر نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھےگی تو اس کا ایک پاؤں دنیا میں اور ایک پاؤں جنت میں ہوگا
الجواب باسمه تعالی
ہمارے علم کے مطابق اس مضمون کی روایت کتب احادیث میں کہیں بھی موجود نہیں، چاہے صحاح ہوں یا ضعیف روایات یا موضوعات کی کتابیں.
البتہ کچھ روایات کو جوڑ کر اس مضمون کو بنانے کی کوشش کی گئی ہے.
روایت نمبر١:
نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھنے کی فضیلت:
اس مضمون کی روایات کو امام نسائی، امام طبرانی اور ابن السنی نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے کہ “جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھےگا تو اسکو جنت میں داخل ہونے سے صرف موت مانع ہے.” (یعنی مرتے ہی جنت) اس روایت کی سند کو حسن قرار دیا گیا ہے.
قال الإمام النسائي رحمه الله في “السنن الكبرى” (9848):
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ بِشْرٍ، بِطَرسُوسَ، كَتَبْنَا عَنْهُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حِمْيَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَنْ قَرَأَ آيَةَالْكُرْسِيِّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ دُخُولِ الْجَنَّةِ إِلَّا أَنْ يَمُوتَ”.
– وهكذا رواه الطبراني في “الكبير” (7532).
– والروياني في “مسنده” (1268).
– وابن السني في “عمل اليوم والليلة” (124) من طريق محمد بن حمير به.
وهذا إسناد جيد.
روایت نمبر ٢:
حضور اکرم ﷺ نے جب وفات کے وقت موت کی سختی کو دیکھا تو فرشتے سے کہا کہ نرمی کا معاملہ کرنا تو آسمان سے ایک فرشتہ آیا جس نے بتایا کہ آپ کے ساتھ بیس گنا زیادہ نرمی کی گئی جبکہ موت کی سختی کا ایک جھٹکا تلواروں کے کاٹنے سے زیادہ سخت ہے تو آپ علیہ السلام نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ اے اللہ! میری امت پر موت کی سختی آسان کردے اور ان کی مشقت مجھے دے دے
وقال: اااه إن للموت لسكرات، وطلب من ملك الموت أن يرفق به، فنزل عليه ملك من السماء وقال: يامحمد! إن السلام يقرئك السلام، ويقول لك: إنه خفف عنك بضعا وعشرين سكرة، وكل سكرة كتقطيع السيوف، فقال الرسول صلى الله عليه وسلم وهو يصارع الموت: اللهم شدد عليّ سكرات الموت وخفف عن أمتي، وأعادها ثلاثاً.
روایت کا حکم:
یہ روایت من گھڑت اور جھوٹی ہے کیونکہ یہ روایت کسی بھی کتاب میں (صحیح یا ضعیف سند سے کہیں بھی) منقول نہیں، بلکہ روایات کی تحقیق کرنے والے تمام افراد و ادارے اس کی تحقیق سے عاجز آچکے ہیں.
خلاصہ کلام
لہذا اب یہی کہا جائےگا کہ اس وقت میسجز کے ذریعے جس روایت کو عام کیا جارہا ہے یہ روایت ناقابل اعتبار اور ناقابل بیان ہے، لہذا اس طرح کی چیزیں پھیلانے سے اجتناب لازم ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ