ایک عورت چار مردوں کو جہنم لے کر جائےگی
سوال: ایک روایت سنی ہے کہ قیامت کے دن ایک عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم میں لے کر جائےگی: باپ کو، بھائی کو، بیٹے کو اور شوہر کو… اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے.
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت کسی بھی مستند (صحیح یا ضعیف) سند سے کہیں بھی منقول نہیں، البتہ مختلف تفاسیر میں بعض آیات کے ذیل میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت اس معنی کے قریب قریب منقول ہے اور غالبًا یہ مضمون اسی روایت سے لیا گیا ہے۔
امام طبری نے اپنی تفسیر طبری میں سند کے ساتھ یہ روایت دو جگہ نقل کی ہے: ایک سورہ نساء میں اور ایک سورہ مؤمنون میں.
فقد روى الإمام الطبري رحمه الله أثرًا عن عبدالله بن مسعود رضي الله عنه وأرضاه، أورده في موضعين من “تفسيره”، أحدهما في سورة النساء، والثاني في سورة المؤمنون.
روایت کچھ یوں ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایک بندے اور بندی کو لایا جائیگا تو ایک آواز لگانے والا آواز لگائےگا کہ یہ فلاں بن فلاں ہے جس کسی کا حق اس کے ذمے ہو وہ آکر اپنا حق لے لے تو اس وقت عورت خوش ہوجائیگی کہ اس کا حق اس کے باپ یا بھائی یا شوہر کے ذمے ہے جو اس کیلئے لیا جائےگا، پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی کہ قیامت کے دن کوئی رشتہ داری کام نہیں آئےگی، پس اللہ تعالی اپنا حق معاف کردینگے لیکن انسانوں کے حقوق میں سے کچھ بھی معاف نہ ہوگا۔
وقال ابن أبي حاتم: حدثنا أبوسعيد الأشج، حدثنا عيسى بن يونس، عن هارون بن عنترة عن عبدالله بن السائب، عن زاذان قال: قال عبدالله بن مسعود: يؤتى بالعبد والأمة يوم القيامة، فينادي مناد على رؤوس الأولين والآخرين: هذا فلان بن فلان، من كان له حق فليأت إلى حقه. فتفرح المرأة أن يكون لها الحق على أبيها أو أخيها أو زوجها. ثم قرأ: {فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَّلَا يَتَسَاءَلُوْنَ} [المؤمنون:101] فيغفر الله من حقه ما يشاء، ولا يغفر من حقوق الناس شیئا.
ورواه ابن جرير من وجه آخر، عن زاذان به نحوه. ولبعض هذا الأثر شاهد في الحديث الصحيح.
اسی طرح کی ایک اور روایت میں بیٹے کا بھی تذکرہ ہے.
قال عبدالله بن مسعود: يؤخذ بيد العبد والأمة يوم القيامة فينادي مناد على رءوس الأولين والآخرين: هذا فلان بن فلان مَن كان له حق فليأت إلى حقه فتفرح المرأة أن يذوب لها الحق على أبيها أو على ابنها أو على أخيها أو على زوجها.
ایک روایت میں ہے کہ مرد بھی اپنا حق ان رشتہ داروں سے لینے پر خوش ہوگا اگرچہ وہ بہت معمولی حق ہی کیوں نہ ہو
.حدثني به المثنى قال حدثنا مسلم بن إبراهيم قال حدثنا صدقة بن أبي سهل قال حدثنا أبوعمرو عن زاذان قال: أتيت ابن مسعود فقال [ص: 363]: إذا كان يوم القيامة جمع الله الأولين والآخرين ثم نادى مناد من عند الله: ألا من كان يطلب مظلمة فليجئ إلى حقه فليأخذه، قال: فيفرح (والله) المرء أن يذوب له الحق على والده أو ولده أو زوجته فيأخذ منه وإن كان صغيرا.
خلاصہ کلام
یہ بات بلکل صحیح ہے کہ ہر شخص (خواہ وہ مرد ہو یا عورت) قیامت کے دن اپنے حق کا ضرور سوال کرےگا اور کسی بھی رشتے ناطے کو نہیں دیکھا جائےگا، لیکن یہ روایت کہ ایک عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم میں لے کر جائےگی ایسی روایت کہیں بھی منقول نہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٣ اكتوبر ٢٠١٨