تنبیہ نمبر142

شوہر کا اپنی بیوی سے زنا کرنا

سوال: مندرجہ ذیل پوسٹ کی تحقیق مطلوب ہے…
حضرت ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ:
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ قرب قیامت میں لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ زنا کریں گے، ہم نے حدیث پاک پڑھی تو ہمیں سمجھ نہیں آئی، ہم نے اپنے استاد سے پوچھا کہ استاد جی اس کا کیا مطلب ہے؟ کہ لوگ اپنی ہی بیوی سے زنا کریں گے تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں اس کی کئی صورتیں ہیں:
ایک صورت تو اس کی یہ ہے کہ مرد یا عورت کوئی کفریہ بول بول دے اور نکاح ٹوٹ جائے اور ان کو اس کا پتہ ہی نہیں کہ اس سے انکا نکاح ٹوٹ چکا ہے، اور آج کل تو یہ بات عام ہے لوگوں کو اس بات کاعلم ہی نہیں….الی اخرہ اس پوری روایت کی تحقیق فرما دیجئے…
الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور یہ الفاظ کہ “لوگ قرب قیامت میں اپنی بیویوں سے زنا کریں گے” یہ روایت مختلف کتب میں مختلف الفاظ سے منقول ہے:

أخرجه الطبراني في “المعجم الكبير” (10/228)، وفي “المعجم الأوسط” (4861)، والشجري في “الأمالي” (2803)، من طريق سَيْفُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَ: نَا مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عُتَيٍّ السَّعْدِيِّ، قَالَ عُتَيٌّ:

اس روایت کے راوی عُتَیّ السعدی کہتے ہیں کہ میں علم کی تلاش میں کوفہ پہنچا، وہاں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ میں آپ کے پاس علم کی تلاش میں  آیا ہوں تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ بصرہ کا ہوں، پھر فرمایا کہ قبیلہ کونسا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ بنی سعد کا ہوں، تو انہوں نے فرمایا کہ میں آپ کو حضور علیہ السلام کی حدیث سناتا ہوں: ایک بار ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ یہاں ایک قوم ہے جو بہت مال والی ہے، حضور علیہ السلام نے پوچھا کہ کون ہیں؟ اس نے عرض کیا کہ بنی سعد ہیں، تو اللہ کے نبی نے فرمایا کہ بنی سعد تو بہت خوش نصیب قوم ہے، اےسعدی! پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: کیا قیامت کی کوئی نشانیاں ہیں جن سے قیامت پہچانی جائے؟اس وقت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے، سیدھے ہوگئے اور فرمایا کہ یہی سوال میں نے حضور علیہ السلام سے کیا کہ یارسول اللہ! قیامت کی کوئی نشانی ہے؟  تو اللہ کے نبی نے فرمایا کہ جی ہاں قیامت کی نشانیاں ہیں.

خَرَجْتُ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ حَتَّى قَدِمَتُ الْكُوفَةَ، فَإِذَا أَنَا بِعَبْدِالله بْنِ مَسْعُودٍ، بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، فَسَأَلْتُ عَنْهُ، فَأُرْشِدْتُ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ فِي مَسْجِدِهَا الْأَعْظَمِ فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ! إِنِّي جِئْتُ أَضْرِبُ إِلَيْكَ أَلْتَمِسُ مِنْكَ عِلْمًا، لَعَلَّ الله أَنْ يَنْفَعَنَا بِهِ بَعْدَك، فَقَالَ لِي: مِمَّنِ الرَّجُلُ؟ قُلْتُ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ. قَالَ: مِمَّنْ؟ قُلْتُ: مِنْ هَذَا الْحَيِّ مِنْ بَنِي سَعْدٍ. فَقَالَ لِي: يَاسَعْدِيُّ! لَأُحَدِّثَنَّ فِيكُمْ بِحَدِيثٍ سَمِعَتْهُ مِنْ رَسُولِ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. سَمِعْتُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَارسُولَ الله! أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى قَوْمٍ: كَثِيرَةٌ أَمْوَالُهُمْ، كَثِيرَةٌ شَوْكَتُهُمْ، تُصِيبُ مِنْهُمْ مَالًا دَبْرًا أَوْ قَالَ: كَثِيرًا؟ قَالَ: مَنْ هُمْ؟ قَالَ: هَذَا الْحَيُّ مِنْ بَنِي سَعْدٍ، مِنْ أَهْلِ الرِّمَالِ، فَقَالَ رَسُولُ الله: مَهْ، فَإِنَّ بَنِي سَعْدٍ عِنْدَ الله ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ. سَلْ يَاسَعْدِيُّ. قُلْتُ: أَبَا عَبْدَالرَّحْمَنِ! هَلْ لِلسَّاعَةِ مِنْ عِلْمٍ تُعْرَفُ بِهِ السَّاعَةُ؟ قَالَ: وَكَانَ مُتَّكِئًا فَاسْتَوَى جَالِسًا، فَقَالَ: يَاسَعْدِيُّ! سَأَلَتْنِي عَمَّا سَأَلْتُ عَنْهُ رَسُولَ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: يَارَسُولَ الله! هَلْ لِلسَّاعَةِ مِنْ عِلْمٍ تُعْرَفُ بِهِ السَّاعَةُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، يَا ابْنَ مَسْعُودٍ! إِنَّ لِلسَّاعَةِ أَعْلَامًا، وَإِنَّ لِلسَّاعَةِ أَشْرَاطًا.
قیامت کی نشانیاں:

نشانی نمبر ١:

بچے غصے والے ہونگے.یا والدین کو غصہ دلانے والے ہونگے

 أَلَا وَإِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَكُونَ الْوَلَدُ غَيْظًا.

نشانی نمبر ٢:

بارشیں کم ہونگی. یا بے برکت ہونگی

وَأَنْ يَكُونَ الْمَطَرُ قَيْظًا.

نشانی نمبر ٣:

کمینے اور شریر لوگ بڑھ جائینگے.

وَأَنْ يَفِيضَ الْأَشْرَار فَيْضًا.

نشانی نمبر ٤:

جب امانت دار کو خائن اور خائن کو امانت دار کہا جائےگا.

يَا ابْنَ مَسْعُودٍ! إِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يُؤْتَمَنَ الْخَائِنُ، وَأَنْ يُخَوَّنَ الْأَمِينُ.

نشانی نمبر ٥:

دور والے قریب ہوجائینگے اور رشتہ داروں سے تعلقات ختم ہوجائینگے.

يَا ابْنَ مَسْعُودٍ! إِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ تُوَاصَلَ الْأَطْبَاقُ، وَأَنْ تُقَاطَعَ الْأَرْحَامُ.

نشانی نمبر ٦:

ہر قبیلے کا بڑا وہاں کا منافق ہوگا اور بازار فاجر کمینے لوگوں کے حوالے کیا جائےگا.

يَا ابْنَ مَسْعُودٍ! إِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَسُودَ كُلَّ قَبِيلَةٍ مُنَافِقُوهَا، وَكُلَّ سُوقٍ فُجَّارُهَا.

نشانی نمبر ٧:

مسجد کے محرابوں کو سجایا جائےگا اور دلوں کو برباد کیا جائےگا.*

يَا ابْنَ مَسْعُودٍ! إِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ تُزَخْرَفَ الْمَحَارِيبُ، وَأَنْ تُخَرَّبَ الْقُلُوبُ.

نشانی نمبر ٨:

مؤمن کی حیثیت مال سے بھی کم تر ہوجائےگی.

يَا ابْنَ مَسْعُودٍ! إِنَّ مِنْ أَع ْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَكُونَ الْمُؤْمِنُ فِي الْقَبِيلَةِ أَذَلَّ مِنَ النَّقَدِ.

نشانی نمبر ٩:

مرد مردوں سے اپنی خواہش پوری کرینگے اور عورتیں عورتوں سے خواہش پوری کرینگی.

يَا ابْنَ مَسْعُودٍ! إِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَكْتَفِيَ الرِّجَالُ بِالرِّجَالِ، وَالنِّسَاءُ بِالنِّسَاءِ.

نشانی نمبر ١٠:

بچے حاکم ہوجائینگے اور عورتوں کے ہاتھ میں طاقت آجائےگی.

يَا ابْنَ مَسْعُودٍ! إِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا مُلْكُ الصِّبْيَانِ، وَمُؤَامَرَةُ النِّسَاءِ.

نشانی نمبر ١١:

غیرآباد زمین آباد کی جائےگی اور آبادیوں کو برباد کیا جائےگا.

يَا ابْنَ مَسْعُودٍ! إِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يُعَمَّرَ خَرَابُ الدُّنْيَا، وَيُخَرَّبَ عُمْرَانُهَا.

نشانی نمبر ١٢:

گانے بجانا عام ہوگا،  لوگوں میں تکبر بڑھےگا اور شراب عام ہوجائےگی.

يَا ابْنَ مَسْعُودٍ! إِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ تَظْهَرَ الْمَعَازِفُ وَالْكِبْرُ، وَشُرْبُ الْخُمُورِ.

نشانی نمبر ١٣:

اولاد زنا عام ہونگے.

 يَا ابْنَ مَسْعُودٍ! إِنَّ مِنْ أَعْلَامِ السَّاعَةِ وَأَشْرَاطِهَا أَنْ يَكْثُرَ أَوْلَادُ الزِّنَا»

میں نے عرض کیا کہ کیا وہ مسلمان ہونگے؟  تو فرمایا:  ہاں،  تو میں نے عرض کیا کہ یہ کیسے ہوگا؟  تو فرمایا کہ لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دے دینے کے باوجود بھی ان ہی کے ساتھ رہینگے جس سے وہ زنا کے مرتکب ہونگے اور حرام اولاد پیدا ہوگی.

قُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَهُمْ مُسْلِمُونَ؟ قَالَ: نَعَمْ. قُلْتُ: أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَالْقُرْآنُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ؟ قَالَ: نَعَمْ. قُلْتُ: أَبَا عَبْدِالرَّحْمَنِ، وَأَنَّى ذَلِكَ؟ قَالَ: يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يُطَلِّقُ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ، ثُمَّ يَجْحَدُهَا طَلَاقَهَا، فَيُقِيمُ عَلَى فَرْجِهَا، فَهُمَا زَانِيَانِ مَا أَقَامَا.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
 اس روایت کے تمام طرق میں ایک راوی ہے
سيف بن مسكين:
اس کے متعلق محدثین کا کلام کافی سخت ہے:

١.  ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ من گھڑت روایات نقل کرتا ہے اور اسانید الٹ پلٹ کرتا ہے، لہذا اس کی روایات قابل استدلال   نہیں.

قال ابن حبان في “المجروحين” (446): يَأْتِي بالمقلوبات والأشياء الموضوعات لَا يحل الِاحْتِجَاج بِهِ لمُخَالفَته الْأَثْبَات فِي الرِّوَايَات عَلَى قلتهَا.

٢.  امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بیکار راوی ہے.

وقال الذهبي في “مختصر مستدرك الحاكم” (5465): واه.

٣.  دارقطنی رحمه اللہ لکھتے ہیں کہ یہ مضبوط راوی نہیں ہے.

وقال الدارقطني: ليس بالقوي.

مبارک بن فضالہ ایک راوی ہیں جو تدلیس تسویہ اور تدلیس شیوخ دونوں کرتے ہیں،  لہذا انکی وہ روایت جس میں وہ صراحتا سماع کا لفظ استعمال نہ کریں وہ روایت قابل حجت نہیں

.ومبارك بن فضالة: صدوق يُدلس ويسوي، ولا يُحتج إلا بما صرَّح  فيه بالسَّماع.
خلاصہ کلام

اس روایت کا مضمون کئی روایات سے ملا کر بنایا گیا ہے جس کی وجہ سَیف بن مسکین ہے۔ اس روایت کو محدثین نے سیف کی من گھڑت روایات میں نقل کیا ہے لہذا اس روایت کو من گھڑت ہی کہا جائےگا اور اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٧ اكتوبر ٢٠١٨

اپنا تبصرہ بھیجیں