حیاتِ نبی علیہ السلام کے آخری لمحات
(حصہ أول)
● سوال:
آپ علیہ السلام کی وفات سے تین دن پہلے سے پیش آنے والے واقعات کے متعلق ایک واقعہ سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وصال سے تین دن پہلے جبکہ آپ علیہ السلام حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر تشریف فرما تھے، آپ علیہ السلام نے اپنی تمام ازواج مطہرات کو جمع کرکے ان سے اس بات کی اجازت لے لی کہ میں اپنی بیماری کے ایام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گذار لوں….. (پورا مفصل قصہ ہے)
اس پورے واقعے کی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ آپ علیہ السلام کی وفات کے متعلق صحیح، ضعیف اور موضوع ہر طرح کی روایات کثرت سے منقول ہیں، لہذا ان واقعات کو نقل کرنے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے.
علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ واقدی نے وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بہت ساری روایات نقل کی ہیں جن میں نکارت اور غرابت ہے جن کو ہم نے ان کی اسنادی حیثیت کی کمزوری کی وجہ سے اور ان کے متون کی نکارت کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے اور خاص کر جو قصہ گو لوگ نقل کرتے ہیں ان میں سے اکثریت من گھڑت ہوتے ہیں.
□ قال الحافظ ابن كثير رحمه الله “البداية والنهاية” (5/256): وقد ذكر الواقدي وغيره في الوفاة أخبارًا كثيرةً فيها نكارات وغرابة شديدة، أضربنا عن أكثرها صفحا لضعف أسانيدها، ونكارة متونها، ولا سِيَّما ما يورده كثير من القُصَّاص المتأخرين وغيرهم، فكثير منه موضوع لا محالة.
■ سوال میں مذکور روایت کی اسنادی حیثیت:
یہ روایت بہت ساری روایات سے جوڑ کر بنائی گئی ہے جن میں سے بعض صحیح، بعض ضعیف اور بعض روایات من گھڑت ہیں. ان میں سے ہر روایت کی الگ اسنادی حیثیت واضح کرنے کی کوشش کی جائےگی.
● ١. پہلی روایت:
وفات سے تین روز پہلے جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے.
□ وعاد الرسول وقبل الوفاة بـ ٣ أيام بدأ الوجع يشتد عليه وكان في بيت السيدة ميمونة.
¤ تحديد المدة بالأيام لم ترد ولم تثبت… والله أعلم.
تحقیق:
تین دن کی تحدید کسی بھی روایت سے ثابت نہیں، اسی طرح حضرت میمونہ کے حجرے میں ہونا بھی کہیں سے ثابت نہیں.
● ٢. دوسری روایت:
ارشاد فرمایا کہ “میری بیویوں کو جمع کرو۔” تمام ازواج مطہرات جمع ہوگئیں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: “کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گذار لوں؟” سب نے کہا اے اللہ کے رسول! آپ کو اجازت ہے۔
□ فقال: “اجمعوا زوجاتي” فجمعت الزوجات. فقال النبي: “أتأذنون لي أن أمرض في بيت عائشة؟” فقلن: نأذن لك يارسول الله.
تحقیق:
یہ روایت بھی درست نہیں.
البتہ چونکہ آپ علیہ السلام بار بار دریافت فرماتے تھے کہ کل میں کہاں ہونگا؟ تو ازواج مطہرات نے آپ علیہ السلام کو حضرت عائشہ کے گھر میں رہنے کی اجازت دے دی.
● ٣. تیسری روایت:
پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھ نہ پائے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما آگے بڑھے اور نبی علیہ الصلاة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ہوا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ہوا؟ چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہوگئے اور مسجد شریف میں ایک ہجوم لگ گیا۔
□ فأراد أن يقوم فما استطاع فجاء علي بن أبي طالب والفضل بن العباس فحملا النبي وخرجوا به من حجرة السيدة ميمونة الى حجرة السيدة عائشة فرآه الصحابة علي هذا الحال لأول مرة…
¤ هذا لا علم لي به.
تحقیق:
ایسی کوئی روایت ثابت نہیں.
● ٤. چوتھی روایت:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔
□ فيبدأ الرسول يعرق ويعرق ويعرق، وتقول السيدة عائشة: أنا بعمري لم أرى أي إنسان يعرق بهذه الكثافة. فتأخذ يد الرسول وتمسح عرقه بيده، (فلماذا تمسح بيده هو وليس بيدها) تقول عائشة: إن يد رسول الله أطيب وأكرم من يدي فلذلك أمسح عرقه بيده هو وليس بيدي أنا. (فهذا تقدير للنبي)
تحقیق:
یہ روایت بھی ثابت نہیں.
● ٥. پانچویں روایت:
اور فرماتی ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلاة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔
مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم سے بس یہی ورد سنائی دے رہا تھا کہ “لا إله إلا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔”
□ فتقول: كنت آخذ بيد النبي وأمسح بها وجهه، لأن يد النبي أكرم وأطيب من يدي.
وتقول: فأسمعه يقول: “لا اله إلا الله، إن للموت لسكرات”.
¤ الحديث صحيح وهو عند البخاري، أن عائشة رضي الله عنها كانت تقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان بين يديه ركوة أو علبة فيها ماء، (يشك عمر) فجعل يدخل يديه في الماء فيمسح بهما وجهه ويقول: “لا إله إلا الله، إن للموت سكرات”، ثم نصب يده فجعل يقول: “في الرفيق الأعلى” حتى قبض ومالت يده.
تحقیق:
یہ روایت درست نہیں ہے.
البتہ آپ علیہ السلام کے پاس انتقال کے وقت ایک برتن میں پانی تھا اور آپ اس میں ہاتھ ڈال کر چہرے پر پھیرتے اور فرماتے کہ بیشک موت کی سختی بہت سخت ہے
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مختلف دعائیں پڑھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر پھیرتی تھیں
□ عن عائشة رضی اللہ عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا اشتكى يقرأ على نفسه بالمعوذات، وينفث، فلما اشتد وجعه كنت أقرأ عليه وأمسح عنه بيده رجاء بركتها.
● ٦. چھٹی روایت:
اسی اثناء میں مسجد کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔ نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا: “یہ کیسی آوازیں ہیں؟” عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ آپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ مجھے انکے پاس لے چلو۔
□ فتقول السيدة عائشة: فكثر اللغط (أي الحديث) في المسجد إشفاقاً على الرسول، فقال النبي: “ما هذا؟” فقالوا: يارسول الله! يخافون عليك، فقال: “احملوني إليهم” فأراد أن يقوم فما إستطاع فصبوا عليه 7 قرب من الماء حتي يفيق، فحمل النبي وصعد إلى المنبر…
¤ الله أعلم بهذا الخبر.
تحقیق:
یہ روایت بھی ثابت نہیں.
● ٧. ساتویں روایت:
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری خطبہ تھا اور آپ علیہ السلام کے آخری کلمات تھے۔
فرمایا: “اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟” سب نے کہا: جی ہاں اے اللہ کے رسول! ارشاد فرمایا: “اے لوگو۔۔! تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم! گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں. اے لوگو۔۔۔! مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گئے، اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کردیا۔”
□ فكانت آخر خطبة لرسول الله وآخر كلمات له: فقال النبي: “أيها الناس! كأنكم تخافون عَلَيَّ؟” فقالوا: نعم يارسول الله. فقال: “أيها الناس، موعدكم معي ليس الدنيا، موعدكم معي عند الحوض، والله لكأني أنظر اليه من مقامي هذا، أيها الناس! والله ما الفقر أخشى عليكم، ولكني أخشى عليكم الدنيا أن تنافسوها كما تنافسها الذين من قبلكم، فتهلككم كما أهلكتهم”.
¤ بهذا اللفظ ليس له أصل.
تحقیق:
اس خطبے کا بھی روایات میں کوئی ثبوت نہیں، البتہ دنیا کی محبت کی بات ایک اور موقعے پر آپ علیہ السلام نے فرمائی تھی جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے مال لے کر آئے تھے.
♧ وفات کے وقت کا صحیح اور ثابت خطبہ مندرجہ ذیل ہے:
□ رواه أبوسعيد الخدري رضي الله عنه قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه ونحن في المسجد عاصبا رأسه بخرقة حتى أهوى نحو المنبر فاستوى عليه واتبعناه، قال: «والذي نفسي بيده، إني لأنظر إلى الحوض من مقامي هذا»، ثم قال: «إن عبداً عرضت عليه الدنيا وزينتها، فاختار الآخرة»، قال: فلم يفطن لها أحد غير أبي بكر رضوان الله عليه فذرفت عيناه، فبكى، ثم قال: بل نفديك بآبائنا وأمهاتنا وأنفسنا وأموالنا يارسول الله، قال: ثم هبط فما قام عليه حتى الساعة.
● ٨. آٹھویں روایت:
پھر مزید ارشاد فرمایا: “اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔” (یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے).
پھر فرمایا: “اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔”
مزید فرمایا: “اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے”.
اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد کوئی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔
جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے: “ہمارے باپ دادا آپ پر قربان، ہماری مائیں آپ پر قربان، ہمارے بچے آپ پر قربان، ہمارے مال و دولت آپ پر قربان…..”
روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا:
“اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو، تم میں سے ایسا کوئی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوائے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا، اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں، سوائے ابوبکر کے دروازے کے جو کبھی بند نہ ہوگا”.
□ ثم قال: “أيها الناس! الله الله في الصلاة، الله الله في الصلاة”. لفظ شاذ. والصواب كانت عامة وصية رسول الله صلى الله عليه وسلم عند موته: «الصلاة وما ملكت أيمانكم» حتى جعل يلجلجها في صدره وما يفيض بها لسانه.
بمعني أستحلفكم بالله العظيم أن تحافظوا على الصلاة، وظل يرددها. ثم قال: “أيها الناس! اتقوا الله في النساء، اتقوا الله في النساء، اوصيكم بالنساء خيرا”. ثم قال: “أيها الناس! إن عبداً خيره الله بين الدنيا وبين ما عند الله، فاختار ما عند الله”. وظل يرددها فنظر الناس إلى أبی بكر، كيف يقاطع النبي فأخذ النبي يدافع عن أبی بكر قائلاً: “أيها الناس، دعوا أبابكر، فما منكم من أحد كان له عندنا من فضل إلا كافأناه به، إلا أبوبكر لم أستطع مكافأته، فتركت مكافأته إلى الله عزوجل، كل الأبواب إلى المسجد تسد إلا باب أبی بكر لا يسد أبداً”.
¤ لفظ شاذ لا أعلم عنه.
تحقیق:
بعینه ایسا کوئی بھی خطبہ آپ علیہ السلام سے ثابت نہیں، البتہ مختلف روایات کو جوڑ کر ایک خطبہ بنایا گیا ہے.
● ٩. نویں روایت:
آخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لئے آخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا: “اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تائید کرے”۔
□ وأخيراً قبل نزوله من المنبر بدأ الرسول بالدعاء للمسلمين قبل وفاته كآخر دعوات لهم فقال: (أواكم الله، حفظكم الله، نصركم الله، ثبتكم الله، أيدكم الله) الحديث (مرحبا بكم، حياكم الله، رحمكم الله، أواكم الله، نصركم الله، رفعكم الله، نفعكم الله، هداكم الله، رزقكم الله، وفقكم الله، سلمكم الله، قبلكم الله، أوصيكم بتقوى الله، وأوصي الله بكم وأستخلفه عليكم، إني لكم منه نذير مبين لا تعلوا على الله في عباده وبلاده فإن الله قال لي ولكم: {تلك الدار الآخرة نجعلها للذين لا يريدون علواً في الأرض ولا فساداً والعاقبة للمتقين} وقال: {أليس في جهنم مثوى للمتكبرين} ثم قال: قد دنا الأجل والمنقلب إلى الله وإلى سدرة المنتهى وإلى جنة المأوى وإلى الرفيق الأعلى والكأس الأوفى والحظ والعيش المهنى).
¤ حديث عند الطبراني والبزار، بسند ضعیف.
تحقیق:
یہ دعا کا حصہ بعض کمزور روایات سے ثابت ہے.
● ١٠. دسویں روایت:
اور آخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی وہ یہ کہ:
“اے لوگو۔۔۔! قیامت تک آنے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔”
□ وكانت آخر كلمة قالها كلمة موجهة إلى الأمة من على منبره قبل نزوله قال: “أيها الناس، أقرأوا مني السلام كل من تبعني من أمتي إلى يوم القيامة”
تحقیق:
یہ الفاظ کہ “میری قیامت تک آنے والی امت کو میرا سلام پہنچاؤ”= یہ ثابت نہیں.
البتہ ضعیف روایت سے یہ الفاظ ثابت ہیں کہ: “میری امت کے جس بھی فرد سے ملو اس کو میرا سلام پہنچاؤ”.
□ ايها الناس اقرءوا مني السلام على من تبعني من امتي إلى يوم القيامة.
قلت ورد بلفظ: اقرءوا على من لقيتم من أمتى بعدى السلام الأول فالأول إلى يوم القيامة. (عن ابن مسعود)
أخرجه الشيرازى فى الألقاب كما فى البيان والتعريف للحسينى (1/127)، والمداوى للشيخ الغمارى (2/134).
رتبة الحديث: ضعيف.
قال الألباني: ضعيف.
انظر حديث رقم: (1071) في ضعيف الجامع.
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٧ جولائی ٢٠١٩ مدینہ منورہ