دعا کے اول آخر درودشریف پڑھنا
سوال
گذشتہ روز مفتی زرولی خان صاحب کی ایک تقریر سامنے آئی جس میں انہوں نے درودشریف سے دعا کی ابتداء کرنے، نیز اول آخر درودشریف پڑھنے کو غلط قرار دیا ہے…
کیا یہ بات درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
محترم مفتی صاحب کی بات میں دو باتیں قابل غور ہیں:
١. پہلی بات:
جس روایت کو مفتی زرولی خان صاحب نے ذکر کرکے فرمایا کہ اس صحابی نے درودشریف سے دعا شروع کی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: “عجل هذا” اس نے جلدی کی.
¤ ایسی کوئی روایت نہیں..
بلکہ یہ ایک صحیح روایت ہے جو ابوداود اور ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے دورانِ نماز ثناء اور درود کے بغیر دعا شروع کی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: “عجل هذا” یعنی اس نے جلدی کی.
یہاں غالبا مفتی صاحب یدعو فی الصلاة پر توجہ نہ دے سکے اور اس کو صلاة بمعنی درود کے سمجھ لیا، جبکہ ایسا نہیں ہے.
□ والترمذي وأبوداود عن فضالة بن عبيد صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سمع رجلاً يدعو في الصلاة، ولم يذكر الله عزوجل ولم يصلِّ على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: عجل هذا، ثم دعاه فقال له ولغيره: إذا صلى أحدكم فليبدأ بتحميد ربه والثناء عليه ثم ليصلِّ على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم ليدع بعد بما شاء. (قال الشيخ شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح).
شیخ عطیہ شرح بلوغ المرام میں لکھتے ہیں کہ اس شخص نے نماز میں آپ علیہ السلام پر درود پڑھے بغیر دعا شروع کی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس نے جلدی کردی.
□ أن هذا الرجل دعا الله في صلاته دون أن يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم قبل الدعاء، فقال صلى الله عليه وسلم: (عجل هذا)، أي: تعجل في الدعاء ليحصل على الإجابة المطلوبة، ثم دعاه فقال له: إذا صلى أحدكم فليبدأ بالثناء على الله، وليصل على النبي. (شرح بلوغ المرام… المؤلف: عطية بن محمد سالم).
٢. دوسری بات:
دعا کا صحیح اور بہترین طریقہ یہی ہے کہ انسان پہلے ثناء اور تمجید بیان کرے پھر درودشریف پڑھے پھر اپنی حاجت مانگے، جیسا کہ اس سے پہلی روایت میں بیان کیا گیا.
● کیا صرف درودشریف پڑھ کر دعا مانگی جاسکتی ہے؟
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر دعا کو روکا جاتا ہے جبتک کہ آپ علیہ السلام پر درود نہ پڑھا جائے.
□ وقد قال ﷺ: كل دعاء محجوب حتى يصلي على النبي ﷺ.
یہی قول حضرت علی سے بھی منقول ہے.
□ وروى البيهقي في شعب الإيمان عن علي رضي الله عنه قال: “كل دعاء محجوب حتى يصلَّى على النبي صلى الله عليه وسلم”.
ورواه بقي بن مخلد عن علي مرفوعا إلى النبي صلى الله عليه وسلم. (والحديث صححه الألباني في صحيح الجامع برقم: 4523)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دعا زمین اور آسمان کے درمیان لٹکی رہتی ہے جبتک آپ علیہ السلام پر درود نہ بھیجا جائے.
□ وقال عمر رضي الله عنه: إن الدعاء موقوف بين السماء والأرض لا يصعد منه شيء حتى تصلي على نبيك صلى الله عليه وسلم. [رواه الترمذي (486) وحسنه الألباني في صحيح الترمذي (403)].
امام نووی کہتے ہیں کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ دعا کو ثناء اور درود سے شروع کیا جائے اور ان دونوں سے ہی ختم کی جائے.
□ قال الإمام النووي رحمه الله في الأذكار (ص:176): أجمع العلماء على استحباب ابتداء الدعاء بالحمد لله تعالى والثناء عليه، ثم الصلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكذلك تختم الدعاء بهما، والآثار في هذا الباب كثيرة مرفوعة.
علامہ ابن القیم نے دعا سے قبل درود شریف کی تین صورتیں ذکر کی ہیں:
□ الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم عند الدعاء فقد ذكرها العلامة ابن القيم رحمه الله فقال:
١. پہلی صورت:
پہلے حمد و ثنا ہو پھر درود شریف پھر دعا.
□ إحداها: أن يصلي عليه قبل الدعاء وبعد حمد الله تعالى.
٢. دوسری صورت:
دعا سے پہلے، درمیان میں اور آخر میں درودشریف پڑھا جائے.
□ والمرتبة الثانية: أن يصلي عليه في أول الدعاء وأوسطه وآخره.
٣. تیسری صورت:
دعا سے پہلے اور بعد میں درود پڑھا جائے.
□ والثالثة: أن يصلي عليه في أوله وآخره ويجعل حاجته متوسطة بينهما. (جلاء الأفهام، ص:375).
علامہ ابن القیم لکھتے ہیں کہ ان تمام مقامات میں دعا سے قبل درودشریف کا حکم ہے کیونکہ دعا کی چابی ہی درودشریف ہے جیسا کہ نماز کی کنجی وضو ہے.
□ وقال ابن القيم: وهذه المواطن التي تقدمت كلها شرعت الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم فيها أمام الدعاء، فمفتاح الدعاء الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم كما أن مفتاح الصلاة الطهور فصلى الله عليه وعلى آله وسلم تسليماً. (جلاء الأفهام، ص:377).
احمد بن ابی الحواری لکھتے ہیں کہ میں نے ابوسلیمان الدارانی سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ جو شخص یہ چاہے کہ اللہ تعالی سے اپنی حاجت مانگے پس اسکو چاہیئے کہ درودشریف سے شروع کرے اور پھر اپنی حاجت مانگے اور پھر اختتام بھی درود سے کرے کہ یہی دعا کی قبولیت کا سبب ہے.
□ وقال احمد بن أبي الحواري سمعت أباسليمان الداراني يقول: من أراد أن يسأل الله حاجته فليبدأ بالصلاة على النبي وليسأل حاجته وليختم بالصلاة على النبي فإن الصلاة على النبي مقبولة والله أكرم أن يرد ما بينهما.
● جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتوی:
درودشریف خود ایک دعا ہے، اور یہ دعا ایسی ہے جس کی قبولیت میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں ہے؛ کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں خود اس کی خبر دی ہے، اور ہمیں بھی درود بھیجنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا معلوم ہوا کہ درودشریف ایسی دعا ہے جس کی قبولیت یقینی ہے، اب جب بندہ اپنی حاجت مانگتا ہے تو اس کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ درودشریف پڑھ کر اپنی حاجت کی دعا مانگے، یا دعا کے فوراً بعد درودشریف پڑھے، اس سے زیادہ امید ہوگی کہ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائیں گے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بعید ہے کہ وہ ایک دعا کو قبول فرمائیں اور اس کے ساتھ متصل مانگی جانے والی دعا کو رد کردیں.
ہمارے ہاں عموماً یہ مشہور ہے کہ دعا کے اول و آخر میں درودشریف پڑھنا ضروری ہے، اور اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ دعا کے بالکل آغاز اور بالکل اختتام پر درودشریف پڑھا جائے، اس کی وضاحت بھی مناسب معلوم ہوتی ہے۔ علمائےکرام نے احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں دعا کا یہ ادب ضرور بتایا ہے کہ دعا کے شروع اور آخر میں درودشریف ہو، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دعا ہی درودشریف سے شروع کی جائے، بلکہ دعا کا مسنون طریقہ جو کئی احادیث میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوب حمد وثنا کی جائے، اس کے بعد آپ ﷺ پر درودشریف بھیجا جائے، پھر آپ ﷺ کے آل و اصحاب پر درود بھیج کر اپنی حاجت مانگی جائے، پھر دعا کے اختتام میں درودشریف اور پھر آخر میں حمد وثنا پر دعا ختم کی جائے۔ یہ دعا کا مسنون طریقہ ہے، اس کے مطابق دعا کے شروع اور آخر میں درودشریف بھی ہے، لیکن سب سے پہلے اور سب سے آخر میں حمد وثنا باری تعالیٰ ہے. یہ دعا کا مسنون طریقہ ہے. البتہ اگر کوئی شخص دعا کو درودشریف ہی سے شروع کرے اور ختم بھی درودشریف پر ہی کرے تو یہ بھی جائز ہے، اگر حضور ﷺ کی محبت میں ایسا کرےگا تو یہ خلافِ ادب بھی نہیں کہلائے گا۔
خلاصہ کلام
دعا کو درودشریف سے شروع کرنا اور اول آخر درودشریف پڑھنا نہ صرف یہ کہ سلف سے ثابت ہے بلکہ شرعا بھی اس کا حکم موجود ہے، لہذا اس کو غلط کہنا یا محرومی قرار دینا ایک علمی غلطی ہے جس سے اجتناب لازم ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
يكم دسمبر ٢٠١٩ کراچی