تنبیہ نمبر 255

*اپنے بچے کو پیار سے پکارنا*

سوال
ثاقب رضا مصطفائی صاحب کے ایک بیان میں مندرجہ ذیل واقعہ سنا ہے اس کی تحقیق مطلوب ہے…
کسی زمانے میں ایک غیرمسلم نے اسلام قبول کیا تو اس سے پوچھا گیا کہ اسلام کی کس بات نے تجھے متاثر کیا؟ تو وہ بولا کہ صرف ایک واقعہ میری ہدایت کا سبب بن گیا. کہا کہ مجلس رسول صلی اللہ علیہ وسلم لگی ہوئی تھی، لوگوں کا ہجوم تھا. ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور میرے لئے دعا کردیں، میرا بچہ کئی دنوں سے مل نہیں‌ رہا وہ مل جائے.. قبل اس کے کہ حضور کے ہاتھ اٹھتے، مجلس میں موجود ایک شخص نے کھڑا ہو کر عرض کیا کہ حضور! میں ابھی ابھی فلاں باغ سے گذر کر آیا ہوں، اس کا بچہ وہاں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا.. باپ نے جب سنا کہ میرا بچہ فلاں باغ میں ہے تو اس نے دوڑ لگا دی.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو روکو، واپس بلاؤ۔۔ اس نے کہا: حضور آپ جانتے ہیں کہ ایک باپ کے جذبات کیا ہوتے ہیں؟ کہا اچھی طرح سے آگاہ ہوں.. لیکن تمہیں بلانے کا بھی ایک مقصد ہے. اس نے کہا: جی حضور ارشاد فرمائیں. فرمایا کہ جب باغ جاؤ اور بچوں کے ساتھ اپنے بچے کو کھیلتا ہوا دیکھ لو تو بیٹا بیٹا کہہ کر آوازیں نہ دینے لگ جانا، جو نام رکھا ہے اس نام سے پکارنا، کہا کہ حضور وہ میرا بیٹا ہے، اگر میں بیٹا کہہ کر بلاؤں تو حرج بھی کیا ہے؟ فرمایا کہ تم کئی دنوں کے بچھڑے ہو، تمہارے لہجے میں بلا کا رس ہوگا، اور تم نہیں جانتے کہ کھیلنے والوں میں کوئی یتیم بھی ہو، جب تم اپنے بیٹے کو بیٹا کہہ کر پکارو گے، اتنا میٹھا لہجہ ہوگا تو اس کے دل پر چوٹ لگے گی اور کہےگا کہ کاش آج میرا بھی باپ ہوتا تو مجھے بیٹا کہہ کر پکارتا، فرمایا یہ شوق گھر جا کر پورا کرنا.
آپ نے فرمایا کہ کسی بیوہ کے سامنے اپنی بیوی سے پیار نہ کرو، غریب کے سامنے اپنی دولت کی نمائش کرنے سے روکا گیا.
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ اپنے گوشت کی خوشبو سے اپنے ہمسائے کو تنگ نہ کرو.
اس غیرمسلم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعے نے (کہ کسی یتیم کے سامنے اپنے بیٹے کو بیٹا کہہ کر نہ پکارو) مجھے بتایا کہ اسلام کیا ہے…
*کیا یہ واقعہ درست ہے؟*
الجواب باسمه تعالی

سوال میں مذکور *پہلا واقعہ* کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی معتبر سند سے منقول نہیں، یہانتک کہ موضوعات (یعنی من گھڑت) روایات پر لکھی گئی کتب میں بھی یہ واقعہ ہمیں نہ مل سکا.. واللہ اعلم مصطفائی صاحب نے یہ واقعہ کہاں سے نقل کیا ہے..

چونکہ اس واقعے میں آپ علیہ السلام کے زمانے کی طرف نسبت کی گئی ہے اسلئے اس کی سند کا ہونا (اور اس سند کا کم از کم ضعیف درجے تک کا ہونا بھی) ضروری ہے، جبکہ ایسی کوئی سند یا واقعہ ہمیں نہ مل سکا.

*دوسری روایت:*

کسی بیوہ کے سامنے اپنی بیوی سے پیار (کا اظہار) کرنا.

*¤ یہ روایت بھی ثابت نہیں.*

*تیسری روایت:*

اپنے گوشت کی خوشبو سے ہمسائے کو تنگ نہ کرو.

*¤ یہ روایت کمزور سند سے ثابت ہے.*

خلاصہ کلام

کسی بھی واقعے کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنے سے پہلے اس بات کا یقین کرلینا انتہائی ضروری ہے کہ وہ واقعہ آپ علیہ السلام سے کسی مستند کتاب میں سند کے ساتھ ثابت ہو.

کسی بھی کتاب میں منقول ہونا کسی واقعے کی صحت کی دلیل نہیں، لہذا آپ علیہ السلام کی طرف کسی بھی واقعے کو منسوب کرنے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٥ جنوری ٢٠٢٠ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں