تنبیہ نمبر 268

گاہگ کو پڑوس کی دکان پر بھیجنا

سوال
ایک صحابیؓ نے اپنے گاہک کو کسی یہودی کی دکان پر بھیجا تھا کہ جاؤ صبح سے ان کی دکان پر کوئی گاہک نہیں آیا، تم وہیں سے اپنا سودا خرید لو…
کیا یہ واقعہ ثابت ہے؟
الجواب باسمه تعالی

عہد صحابہ کرام میں ایسا کوئی واقعہ نظر سے نہیں گذرا.

البتہ سوق مناخلیہ کے دکانداروں کا عمل ملتا ہے. (سوق مناخلیہ جو کہ دمشق شام میں واقع ایک قدیم تاریخی بازار ہے، بعض مؤرخین نے اس کو 1800 سال پرانا بازار قرار دیا).

□ يقع سوق المناخلية ضمن سور دمشق الأثري، ويعود تاريخه إلى أكثر من 1800 عام؛ أي ما يقارب تاريخ بناء الجامع الأموي وقلعة دمشق.. يحده من الشرق حي العمارة، ومن الغرب قلعة دمشق، ومن الجنوب أحد فروع نهر بردى الذي يفصله عن سوق العصرونية، ومن الشمال شارع الملك فيصل.

مؤرخین لکھتے ہیں کہ بازار کے لوگ ایک گھرانے کی طرح رہتے تھے اور ان میں ایک عمل بہت عام تھا کہ جب صبح سب لوگ دکانیں کھولتے تھے تو جب پہلا گاہگ کسی دکاندار سے کوئی چیز خریدتا تو وہ دوسرے گاہگ کو اس وقت تک کوئی چیز فروخت نہیں کرتا جبتک کہ پڑوسی دکاندار کی ابتداء (بونی) نہ ہوجائے اور گاہگ کو پڑوس دکاندار کے پاس یہ کہتے ہوئے بھیجتے تھے کہ میں نے کھاتہ کھول لیا ہے آپ میرے پڑوسی سے جاکر خرید لیں تاکہ اس کی بھی ابتداء ہوجائے.

□ كان جميع أصحاب المحلات يعيشون في السوق كأسرة واحدة، حتى إن هناك تقليدا شائعا بين جميع أصحاب المحلات، وهو عندما يفتح الجميع دكاكينه ويأتي لأحدهم زبون في الصباح، فيشتري ما يريد، فإن صاحب الدكان الذي باع الزبون لا يقبل أن يبيع لزبون آخر حتى يستفتح جاره، ويبيع، وبالتالي يرسل الزبون الآخر لجاره قائلا له: أنا استفتحت ببيعة، اذهب إلى جاري واشتر من عنده حتى يستفتح.
خلاصہ کلام

یہ عمل کس زمانے کا ہے اس کا تعین تو نہیں ہوسکتا لیکن اس عمل کو زمانہ رسول یا زمانہ صحابہ کا قرار دینا بھی مشکل ہے، البتہ یہ اعلی اخلاق یقینا اسلام کے مرہون منت ہیں کہ اسلام نے جس قدر پڑوسیوں کے حقوق کی ترغیب دی ہے اور عملا صحابہ نے جو کرکے دکھایا ہے تو اسلامی معاشرے اور مسلمانوں کے بازاروں کو ایسا ہی ہونا چاہیئے.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
9فروری ٢٠٢٠ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں