نسب پر فخر، نسب کا طعنہ
سوال
محترم مُفتی صاحب!
اکثر لوگ دوسروں کے کافر یا غیرمسلم آباؤ اجداد کا مذاق اڑاتے ہیں اور تضحیک کرتے ہیں کہ وہ جاہل اور ظالم تھے، اس کے بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے کہ ایسا کرنا یا کہنا جائز ہے یا اس سے منع کیا گیا ہے؟ اور کیا جنگ میں بطور رزم اپنے غیرمسلم آباؤ اجداد کی بہادری اور شجاعت کا ذکر کرنے کی اجازت ہے؟
(سائل: عرفان بیگ، ایڈووکیٹ چوک، اعظم ضلع لیہ)
الجواب باسمه تعالی
اسلام سے قبل عربوں میں حسب نسب کے اعتبار سے چند بڑی غلطیاں موجود تھیں
١. پہلی غلطی:
اپنے حسب نسب پر فخر کرنا.
٢. دوسری غلطی
اپنے حسب نسب (عصبیت) کی بنیاد پر لڑنا جگھڑنا اور اپنے ہم نسب کی غلط بات میں اسکا ساتھ دینا
٣. تیسری غلطی:
دوسروں کے نسب پر طعنہ زنی کا رواج بہت زیادہ تھا
٤. چوتھی غلطی:
بعض کم نسب کے لوگ اپنی اصلی خاندانی حیثیت کو چھپا کر اپنے آپ کو کسی اور نسب کی طرف منسوب کرتے تھے تاکہ اس نسب کی وجہ سے اس کا خاندان بھی اعلی ہوجائے
آپ علیہ السلام نے ان تمام باتوں کی شدت سے نفی فرمائی اور تمام انسانوں کو ایک جیسا قرار دیا، عزت اور اکرام کا سبب صرف تقوے کو قرار دیا گیا
خطبہ اوسط ایام التشریق کے متعلق حافظ نورالدین ہیثمی ابونقرۃ سے روایت لائے ہیں جس میں آپؐ کا فرمان یوں روایت کیا گیا ہے: ’’لوگو! بےشک تمہارا رب ایک ہے اور بےشک تمہارا باپ ایک ہے، کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے۔‘‘ (سیرۃ النبی، از شبلی نعمانی: ۲؍۱۵۵)
یأیها الناس! إن ربکم واحد وأباکم واحد ألا لا فضل لعربي على عجمي ولا لعجمي على عربي ولا أسود على أحمر ولا أحمر على أسود إلا بالتقوی”. (مجمع الزوائد:۳؍۲۶۶، مسند احمد:۵؍۴۱۲)
○ ١. پہلی غلطی کا ازالہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت و غرور کو ختم کردیا اور باپ دادا کا نام لے کر فخر کرنے سے روک دیا، (اب دو قسم کے لوگ ہیں) ایک متقی و پرہیزگار مومن، دوسرا بدبخت فاجر، تم سب آدم کی اولاد ہو، اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں، لوگوں کو اپنی قوموں پر فخر کرنا چھوڑ دینا چاہیئے کیونکہ ان کے آباء جہنم کے کوئلوں میں سے کوئلہ ہیں (اس لئے کہ وہ کافر تھے، اور کوئلے پر فخر کرنے کے کیا معنی) اگر انہوں نے اپنے آباء پر فخر کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کے نزدیک اس گبریلے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہو جائیں گے، جو اپنی ناک سے گندگی کو دھکیل کر لے جاتا ہے
حديث أبي هريرة رضي الله تعالى عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إِنَّ الله عَزَّوَجَل قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالآْبَاءِ، مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ، وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ، أَنْتُمْ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ، لَيَدَعَنَّ رِجَالٌ فَخْرَهُمْ بِأَقْوَامٍ، إِنَّمَا هُمْ فَحْمٌ مِنْ فَحْمِ جَهَنَّمَ، أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى الله مِنَ الْجِعْلاَنِ الَّتِي تَدْفَعُ بِأَنْفِهَا النَّتِنَ. (رواه الترمذي:3270، وأبوداود: 5116)
○ ٢. دوسری غلطی کا ازالہ:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے: ’’جو شخص عصبیت کی وجہ سے ناراض ہوتا ہے، یا عصبیت کی طرف بلاتا ہے، یا عصبیت کی وجہ سے کسی کی مدد کرتا ہے، پس مارا گیا تو اس کا قتل جاہلیت کا ہوگا، وہ مجھ سے نہیں ہے اور میں اس سے نہیں ہوں۔‘‘ (مشکوٰۃ، باب حکومت کا بیان، بحوالہ مسلم)
☆ عصبیت کا مفہوم:
حضرت واثلہؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! عصبیت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: (عصبیت یہ ہے کہ) تم اپنی قوم کی ظلم پر مدد کرو۔ (ابوداؤد، جلد سوم، حدیث نمبر: 1681)
○ ٣. تیسری غلطی کا ازالہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا تھا: اُمت میں چار کام جاہلیت کی یادگار ہیں، لوگ انہیں ترک نہیں کریں گے، ایک حسب و نسب پر فخر کرنا۔ دوسرا نسب میں طعنہ زنی کرنا۔ تیسرا ستاروں کو بارش برسنے میں مؤثر خیال کرنا اور چوتھا مصیبت کے وقت رونا، دھونا اور ہائے واویلا کرنا۔
دور جاہلیت کے نعرے لگانے والے یا دوسروں کے نسب پر انگلی اٹھانے والوں کیلئے ہدایات نبوی
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنَا : ( إِذَا سَمِعْتُمْ مَنْ يَعْتَزِي بِعَزَاءِ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَعِضُّوهُ وَلَا تَكْنُوا )
رواه أحمد ( 35 / 157 ) وحسَّنه محققو المسند
حدیث شرح السنہ میں ہے، مشکاة شریف اور حدیث کی دیگر کتابوں میں بھی موجود ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کا محدثین نے یہ مطلب بتایا ہے کہ جب اپنے نسب پر یعنی اپنے آباء واجداد پر فخر کرے اور دوسروں کو ذلیل سمجھے اور دوسروں کے نسب وبرادری پر طعن کرے تو تم اس سے کہو کہ تمہارے آباء واجداد بھی تو پہلے کافر ومشرک اور زانی وشراب خور تھے اور ان میں جاہلیت کی تمام برائیاں پائی جاتی تھیں، تمہارے لئے جائز نہیں ہے کہ تم اپنے نسب وحسب پر فخر کرو اور دوسروں کو حقیر وذلیل سمجھو۔ (حاشیہ مشکاة: ۴۱۸)
(واللہ تعالیٰ اعلم…
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
○ ٤. چوتھی غلطی کا ازالہ:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص جان بوجھ کر اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کرے اس نے کفر کیا.
روى البخاري (3508) ومسلم (61) عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ الله عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلا كَفَرَ، وَمَنْ ادَّعَى قَوْمًا لَيْسَ لَهُ فِيهِمْ نَسَبٌ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
● درست نسب کی اہمیت:
اسلام ميں درست نسب كى اہميت اس قدر زيادہ ہے كہ اسکے متعلق کئی احادیث وارد ہوئی ہیں
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص علم ركھنے كے باوجود اپنے آپ كو باپ كے علاوہ کسی دوسرے كى طرف منسوب كرے تو ايسے شخص پر جنت حرام ہے۔ (صحیح بخاری: 6766)
□ عن سعد رضي الله عنه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «من ادعى إلى غير أبيه، وهو يعلم أنه غير أبيه، فالجنة عليه حرام».
سیدنا انس بن مالك رضی اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جو شخص باپ كے سوا يا كوئى غلام اپنے آقا كے سوا دوسرے كى طرف اپنے آپ كو منسوب كرے تو اس پر قيامت قائم ہونے تک متواتر اللہ كى لعنت برستى رہتى ہے۔”
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللہ الْمُتَتَابِعَةُ، إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ» (سنن ابی داود: 5115)
تمام مسلمانوں کی عزتیں قابل احترام اور کسی بھی مسلمان کی بےعزتی اسلام میں حرام قرار دی گئی ہے.
فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ وہ فرما رہے تھے: کیا تم جانتے ہو، یہ کون سا دن ہے؟ (اور یہ وہ دن تھا جسے ’یوم الرؤس‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا) سب لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا: یہ اوسط ایام التشریق ہے اور تم جانتے ہو یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، فرمایا: یہ مشعر الحرام ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: میں نہیں جانتا شاید اس وقت کے بعد میں تم سے ملاقات کروں۔ بےشک تمہارا خون، تمہارے اَموال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کا دن حرمت والا ہے اور یہ شہر حرمت والا ہے، یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جا ملو۔ عنقریب وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق سوال کرےگا۔ خبردار! تمہارا قریب والا دور والے کو یہ باتیں پہنچا دے۔ خبردار! کیا میں نے تم کو تبلیغ کردی۔
ثم قال: إني لا أدري لعلى لا ألقاکم بعد هذا، ألا وإن دماءکم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام کحرمة یومکم هذا في بلدکم هذا حتی تلقوا ربکم فیسألکم عن أعمالکم، ألا فلیبلغ أقصاکم أدناکم، ألا هل بلغت”. (بیهقی:۵؍۱۵۱، مجمع الزوائد: ۳؍۲۷۳)
خلاصہ کلام
جیسا کہ اپنے حسب نسب پر بے جا فخر کو اسلام نے ناپسند فرمایا ایسا ہی دوسروں کے نسب کو نیچا دکھانا یا کسی کے آباؤ اجداد کی بےتوقیری کرنے کو بھی اسلام نے سختی سے منع فرمایا ہے لہذا اس طرح کے ہر قول و فعل سے اجتناب لازم ہے فقط واللہ اعلم کتبہ عبدالباقی اخونزادہ
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٠ مارچ ٢٠٢٠ کراچی