تنبیہ نمبر 286

روضہ رسول میں کھڑکی

سوال
ایک بات سنی ہے کہ مصیبت کے وقت صحابہ رضی اللہ عنہم آپ علیہ السلام کی قبر پر ایک کھڑکی کھول دیتے تھے جس سے مصیبتیں ختم ہو جاتی تھیں…
کیا یہ بات درست ہے؟

الجواب باسمه تعالی

واضح رہے کہ صحابہ کرام کا زمانہ سو سال پر محیط رہا ہے، اس پورے عرصے میں صرف ایک ہی واقعہ ایسا ملتا ہے جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روضہ اقدس میں کھڑکی کھولنے کا فرمایا تھا.

□ قال الإمام الدارمي رحمه الله: حدثنا أبوالنعمان، ثنا سعيد بن زيد، ثنا عمرو بن مالك النكري حدثنا أبوالجوزاء أوس بن عبدالله قال: قُحِطَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ قَحْطاً شَدِيداً، فَشَكَوْا إِلَى عَائِشَةَ فَقَالَتْ: انْظُرُوا قَبْرَ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم فَاجْعَلُوا مِنْهُ كِوًى إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى لاَ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ. قَالَ: فَفَعَلُوا، فَمُطِرْنَا مَطَراً حَتَّى نَبَتَ الْعُشْبُ وَسَمِنَتِ الإِبِلُ، حَتَّى تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّىَ عَامَ الْفَتْقِ. (سنن الدارمي، (1/56)، رقم:92).

ترجمہ: اوس بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ ایک بار جب اہل مدینہ شدید قحط میں مبتلا ہوگئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حالت بیان کی تو انہوں نے فرمایا: جاؤ قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر کی طرف سے تھوڑا سا کھول دو، اس طرح کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی چھت نہ ہو، کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا، تو اللہ تعالی نے اتنی بارش نازل فرمائی کہ ہر طرف ہریالی پھیل گئی، اونٹ اس قدر سیر ہوگئے کہ چربی کی وجہ سے ان کے جسمانی اعضاء الگ الگ نظر آنے لگے، اس مناسبت سے اس سال کو “عام الفتق” کا نام دیا گیا.

– سنن دارمی، (1:43، رقم: 93)
– الوفاء باحوال المصطفی، (2:801)
– شفاء السقام، (128)
– المواہب اللدنیہ، (4:276)
– شرح الزرقانی، (11:150)
■ اس روایت کی اسنادی حیثیت:

اس روایت میں دو راوی ایسے ہیں جن پر کلام ہوا ہے:

١. سعید بن زید اخو حماد بن زید.

٢. ابونعمان محمد بن الفضل.

○ سعید بن زید اخو حماد بن زید:

□ اس راوی کو ضعیف قرار دینے والے محدثین:

١. یحیی بن سعید القطان ان کو سخت ضعیف کہتے تھے.

٢. حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ زبان کا سچا تھا لیکن وہم میں مبتلا ہوجاتا تھا.

٣. علامہ سعدی کہتے ہیں کہ یہ بندہ قابل حجت نہیں، علماء اس کی حدیثوں کو ضعیف گردانتے ہیں.

٤. امام نسائی کا کہنا ہے کہ یہ قوی نہیں.

□ اس راوی پر اعتماد کرنے والے محدثین:

١. امام ذہبی “الکاشف” میں لکھتے ہیں کہ سعید بن زید پر ضعف کا الزام لگانا صحیح نہیں، کیونکہ امام مسلم نے اس سے روایات لی ہیں اور ابن معین نے اسے ثقہ کہا ہے. (ج:1، ص:286)

٢. حافظ ابن حجر عسقلانی نے مفصل بیان کیا ہے:

امام بخاری نے کہا کہ مسلم بن ابراہیم نے ہم سے بیان کیا کہ سعید بن زید ابو الحسن صدوق اور حافظ ہے. (التاریخ الکبیر، ج:3، ص:472)

٣. ابن سعد نے اسے ثقہ کہا ہے. (الطبقات الکبری، ج:7، ص:287)

٤. امام احمد بن حنبل نے اس کو “لیس به بأس” کہا ہے جس کا معنی ہے كہ اس پر کوئی اعتراض نہیں. (میزان اعتدال، ج:2، ص:138)

٥. ابن معین “لیس به بأس” سے ثقہ راوی مراد لیتے ہیں. (لسان المیزان، ج:1، ص:13)

٦. ابن عدی نے بھی اس کو صدوق و حافظ کہا. (3/1212)

○ ابونعمان محمد بن الفضل:

یہ اگرچہ ثقہ راوی ہے مگر آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوا تھا، یعنی ضعف حافظہ کے سبب آخری عمر میں صحیح و ضعیف کو خلط کر کے بیان کیا کرتا تھا.

(علم حدیث میں ایسے مختلط راوی کا حکم یہ ہے کہ جو روایات اختلاط سے پہلے کی ہوں وہ مقبول ہوتی ہیں، جو اختلاط کے بعد کی ہوں وہ ناقابل قبول، جبکہ جن روایات کے بارے میں علم نہ ہو کہ وہ اختلاط سے پہلے کی ہیں یا بعد کی وہ بھی مشکوک ہونے کی بنا پر مقبول نہیں ہوتیں).

اور جہاں تک بات ابونعمان کی ہے تو انکا یہ تغیر موت سے پہلے واقع ہوا مگر اس کے بعد انہوں نے روایت نہیں کی. (الکاشف، ج:3، ص:79)

☆ خلاصہ تحقیق:

یہ روایت اگرچہ صحیح درجے کی نہیں ہے لیکن اس کو من گھڑت یا ضعیف جدا بھی نہیں کہہ سکتے، یعنی سند کے لحاظ سے یہ روایت ثابت ہے.

■ اس روایت کے متن پر اعتراضات:

١. پہلا اعتراض:

یہ متن منکر ہے کیونکہ پورے دور صحابہ میں اس طرح کا اور کوئی واقعہ (اس واقعے کے علاوہ) موجود نہیں.

٢. دوسرا اعتراض:

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ میری نظر میں یہ روایت ثابت نہیں، کیونکہ تاریخی حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عائشہؓ کی زندگی میں حجرۂ عائشہ، جس میں نبیﷺ کی قبر تھی اپنی اسی حالت میں برقرار تھا جس صورت میں نبیﷺ کے زمانے میں تھا، یعنی کچھ حصے پر چھت لگی ہوئی اور کچھ حصہ بغیر چھت کے کھلا، مطلب قبر نبیﷺ ایسی نہیں تھی کہ مکمل ڈھکی ہوئی ہو، جیسے کہ صحیحین میں عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ جب عصر کی نماز پڑھتے اس وقت حجرے میں دھوپ پڑ رہی ہوتی تھی۔

اور یہ بات بھی ثابت نہیں کہ آپﷺ کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں حجرے میں کوئی ایسی تبدیلی کی گئی ہو جس کی وجہ سے قبر مبارک ڈھک گئی ہو، لہذا اس میں سوراخ بنانے کا سوال ہی بےمعنی ہے.

□ وقد قال شيخ الإسلام ابن تيمية: وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء، لينزل المطر فليس بصحيح، ولا يثبت إسناده، ومما يبين كذب هذا أنه في مدة حياة عائشة لم يكن للبيت كوة، بل كان باقياً كما كان على عهد النبي صلی اللہ علیه وسلم، بعضه مسقوف وبعضه مكشوف، وكانت الشمس تنزل فيه، كما ثبت في “الصحيحين” عن عائشة أن النبي صلی اللہ علیه وسلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها، لم يظهر الفيء بعد، ولم تزل الحجرة النبوية كذلك في مسجد الرسول ومن حينئذ دخلت الحجرة النبوية في المسجد.
☆ خصوصی نوٹ:

ولید بن عبدالملک نے اپنے عہد میں جب مسجد نبوی کی توسیع کی اس وقت حجرۂ عائشہ کو مسجد میں شامل کیا، پھر ولید ہی نے حجرۂ عائشہ (یا بالفاظ دیگر: قبر نبی) کے گرد اونچی دیوار کھڑی کر کے ڈھک دی اور مذکورہ سوراخ رکھا تاکہ صفائی وغیرہ کے لئے اندر اترا جا سکے۔

٣. تیسرا اعتراض:

علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ اگر بالفرض اس روایت اور واقعے کو مان بھی لیا جائے تب بھی (یوں کہا جائےگا کہ) یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک رائے تھی، (صحابہ کرام کی آراء میں سے بعض کو قبول کیا جاتا ہے اور بعض کو نہیں)، پورے زمانہ صحابہ میں کسی اور کا ایسا کوئی عمل ثابت ہی نہیں.

□ هذا الأثر (على فرض صحته) هو من قبيل الموقوف عن عائشة رضي الله عنها، وحينئذ فقد يكون اجتهاداً منها في هذه المسألة لم ينقل عن غيرها مثله.
□ اس کھڑکی کے متعلق کچھ اور کہانیاں:

١. پہلی کہانی:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حکم کی تعمیل میں روضہ اقدس کی (کھجور کی ٹہنیوں سے بنی) چھت پر جو روشن دان بنایا گیا تھا، وہ سنت ان گنبدوں پر بھی قائم رکھی گئی۔

٢. دوسری کہانی:

ایک مرتبہ مدینہ میں کسی انسان نے گنبد خضراء کو (معاذ الله) شہید کرنے کا ارادہ کیا اور وہ اس مقام پر اس بد ارادے سے پہنچا مگر ایک تیز بجلی کی گونج نے اس انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیا، جب اسکی لاش وہاں سے ہٹائی جانے لگی تو ایسا نہ ہو سکا۔ پھر ایک بزرگ شخص کے خواب میں یہ آیا کہ اسی مقام پر اس انسان کی قبر بنا دی جائے تاکہ یہ سب کے لئے عبرت کا نشان بن جائے اور آئندہ کوئی ایسی جرأت دوبارہ نہ کر سکے۔ اسکے بعد اس انسان کی وہیں قبر بنا دی گئی اور اس پر سبز رنگ کر دیا گیا۔”

خلاصہ کلام

سوال میں مذکور واقعہ پر اگرچہ اشکالات ہوئے ہیں لیکن ہماری رائے میں یہ واقعہ ثابت ہے.

البتہ کیا اس عمل کو دہرایا گیا ہے یا نہیں تو اس کے متعلق اس واقعے کے علاوہ اور کوئی واقعہ نہ زمانہ خیر القرون میں نہ اس کے بعد گذرا ہے، لہذا اس کو حضرت عائشہ کے عمل کے ساتھ ہی خاص کیا جائےگا.

مسلمانوں کو چاہیئے کہ کسی بھی وبا یا مصیبت کے پیش آنے پر اللہ تعالی ہی کی طرف رجوع کریں اور اللہ تعالی سے خوب ساری مغفرت اور رحمت طلب کریں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٣٠ مارچ ٢٠٢٠ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں