عافیت کے انعامات
سوال
نعیم بٹ صاحب نے مندرجہ ذیل دعا اور اسکے جو فضائل بتائے ہیں انکی تحقیق مطلوب ہے، وہ دعا یہ ہے:
اللهم إنى أسئلك العفوَ والعافیةَ فی الدنیا والآخرۃ
اگر یہ دعا اذان اور نماز قائم ہونے کے درمیانی وقفے میں، جو دس سے پندرہ منٹ پر مشتمل ہوتا ہے، تین دفعہ پڑھی جائے تو چار فوائد حاصل ہوتے ہیں:
١) ایسی بیماری نہیں ہوگی جس سے موت واقع ہو.
٢) تنہائی کے گناہ سے حفاظت ہوگی.
٣) دنیا کے ظالم لوگوں سے اسکا واسطہ نہیں پڑےگا.
٤) آسان روزی عطا ہوگی.
اس حدیث کا حوالہ مطلوب ہے، نیز یہ بھی واضح فرما دیں کہ مذکورہ بالا روایت اور اسکے یہ فضائل مستند ہیں یا نہیں؟
الجواب باسمه تعالی
اس سوال میں مذکور اولین حصہ مستند ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنی امت کو عافیت مانگنے کی بہت ترغیب دی، عمومی حالات میں بھی اور خصوصی مواقع پر بھی.
○ اذان اور اقامت کے درمیان عافیت مانگنا:
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اذان اور اقامت کے درمیان دعائیں رد نہیں ہوتیں، صحابہ نے عرض کیا کہ پھر کونسی دعا مانگیں؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت مانگو.
□ الدعاء بين الأذان والإقامة لا يرد، قالوا فما نقول يارسول الله؟ قال: سلوا الله العفو والعافية في الدنيا والآخرة. (حديث صحيح)
○ عمومی حالات میں عافیت مانگنا:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے پہلے خطبے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت مانگو اسلئے کہ ایمان اور یقین کے بعد سب سے بڑی نعمت عافیت کی ہے اور یہ آپ علیہ السلام کی نصیحت ہے.
□ سَلوا اللهَ العفوَ والعافيةَ، فإنَّ أحدًا لم يُعطَ بعدَ اليقينِ خيرًا منَ العافيةِ. (رَواهُ التِّرْمِذِيُّ وابْنُ ماجَهْ. وقالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ إسْنادًا).
□ اس کے متعلق مزید الفاظ:
عفو، عافیت، معافات، فی الدنیا والآخرۃ.
□ سلوا الله «العفو والعافية والمعافاة»
● ان الفاظ کے معانی:
مختلف کتب میں ان الفاظ کی تشریح کی گئی ہے.
١. مجمع بحار الانوار میں لکھا ہے:
عفو کا معنی گناہوں کی مغفرت ہے.
□ فالعفو محو الذنوب.
عافیت کا معنی بیماریوں اور جسمانی مصائب سے حفاظت.
□ والعافية السلامة من الأسقام والبلايا وهي الصحة وضد المرض.
معافات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی انسان کو لوگوں کے شر سے محفوظ کرے اور لوگوں کو اس کے شر سے محفوظ کرے، انسان کو لوگوں سے مستغنی کردے اور لوگوں کو اس سے مستغنی کردے، کہ انسان لوگوں کو معاف کردے اور لوگ اس کو معاف کردیں.
□ والمعافاة أن يعافيك الله من الناس ويعافيهم منك أي يغنيك عنهم ويغنيهم عنك ويصرف أذاهم عنك وأذاك عنهم، وقيل: من العفو وهو أن يعفو عن الناس ويعفوا عنه. (مجمع بحار الأنوار: ٣/٦٢٧)
٢. ملا علی قاری مرقات میں لکھتے ہیں:
آپ علیہ السلام نے روتے ہوئے اپنی امت کو عافیت مانگنے کا حکم فرمایا کیونکہ آپ کو علم دیا گیا تھا کہ امت فتنوں میں مبتلا ہوگی اور شہوات اور مال کی حرص بڑھےگی تو آپ علیہ السلام نے فتنوں سے بچنے کیلئے عافیت مانگنے کی دعا کا حکم فرمایا.
□ وعَنْ أبِي بَكْرٍ رضي الله عنه قالَ: قامَ رَسُولُ الله ﷺ عَلى المِنبَرِ ثُمَّ بَكى، قِيلَ: إنَّما بَكى لِأنَّهُ عَلِمَ وُقُوعَ أُمَّتِهِ فِي الفِتَنِ وغَلَبَةِ الشَّهْوَةِ والحِرْصِ عَلى جَمْعِ المالِ وتَحْصِيلِ الجاهِ فَأمَرَهُمْ بِطَلَبِ العَفْوِ والعافِيَةِ لِيَعْصِمَهُمْ مِنَ الفِتَنِ.
● عافیت کا معنی:
١. گناہوں کی مغفرت اور عیوب کی پردہ پوشی.
□ (فَقالَ: سَلُوا الله العَفْوَ) أيْ مَحْوَ الذُّنُوبِ وسَتْرَ العُيُوبِ.
٢. عافیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے شر سے تیری اور تیرے شر سے لوگوں کی حفاظت کرے.
□ (والعافِيَةَ) قِيلَ: هُوَ أنْ يُعافِيَكَ اللہ مِنَ النّاسِ ويُعافِيَهُمْ مِنكَ، وقِيلَ: أنْ تَعْفُوَ عَنْهُمْ ويَعْفُوا عَنْكَ.
٣. ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دین کو فتنوں سے محفوظ کرے اور بدن کو بیماریوں سے اور روزی میں سخت محنت سے.
□ والأظْهَرُ أنَّ مَعْناهُ السَّلامَةُ فِي الدِّينِ مِنَ الفِتْنَةِ وفِي البَدَنِ مِن سيء الاسقام و شدة المحنة. (مرقاة المفاتيح، شرح مشكاة المصابيح: ٥/١٧٢٤)
٤. ابن اثیر کہتے ہیں کہ عفو کا معنی گناہوں کی بخشش اور عافیت کا معنی بیماریوں سے حفاظت اور معافات کا معنی لوگوں کو تیرے شر سے اور تجھے ان کے شر سے محفوظ کیا جائے.
□ قال ابن الأثير: العفو محو الذنوب والعافية السلامة من الأسقام والبلاء وهي الصحة والمعافاة أن يعافيك من الناس ويعافيهم منك. (فيض القدير: ٢/٥٢٢)
٥. علامہ طیبی کہتے ہیں کہ عافیت کا معنی آفات (وباؤں وغیرہ) سے حفاظت ہے.
□ (خيرا من العافية) قال الطيبي: وهي السلامة من الآفات فيندرج فيها العفو.
● خلاصہ تحقیق:
گناہوں کی معافی، عیوب کی پردہ پوشی، بیماریوں سے حفاظت، بلاؤں سے حفاظت
دین کی حفاظت، سخت محنت سے نجات، لوگوں کے شر سے محفوظ ہونا.
یہ سب علمائےکرام کے اقوال ہیں، احادیثِ مبارکہ میں ایسا کچھ نہیں.
نوٹ: ان فضائل کے ثبوت (اور حوالہ طلب کرنے) کیلئے باقاعدہ بٹ صاحب سے ان کے خاص نمبر پر رابطہ بھی کیا گیا لیکن انہوں نے وہ میسج دیکھنے کے باجود کسی قسم کا کوئی جواب نہیں دیا، جبکہ بھائی سعید انور صاحب نے ملا علی قاری صاحب کی کتاب کی طرف اشارہ کیا کہ یہ ان کا قول ہے.
خلاصہ کلام
نعیم بٹ صاحب نے جس روایت کو بیان کیا اس کا ابتدائی حصہ درست ہے لیکن جو فضائل بیان کئے ہیں یہ کسی بھی روایت میں وارد نہیں.
گذارش ہے کہ ہم سب کو روایات کے بیان میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ یہ راستہ بہت ہی پُرخطر اور اسکا انجام انتہائی بھیانک ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٢ اپریل ٢٠٢٠ کراچی