رمضان کی چیخ
سوال
ایک عالم مولانا شمس الہدیٰ صاحب کی ویڈیو دیکھی جس میں انہوں نے ایک روایت کو بیان کیا ہے جس میں رمضان میں سنائی دینے والی چیخ کا ذكر ہے….
برائے مہربانی اس روایت کی تحقیق مطلوب ہے….
(سائل: عظیم خان، کراچی)
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت مختلف کتب مستدرک حاکم، کتاب الفتن لابی نعیم اور طبرانی کی معجم کبیر میں مختلف سندوں سے منقول ہے:
١. ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی سند.
٢. ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی سند.
٣. فیروز الدیلمی رحمہ اللہ کی سند.
□عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللہ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَتْ صَيْحَةٌ فِي رَمَضَانَ فَإِنَّهُ يَكُونُ مَعْمَعَةٌ فِي شَوَّالٍ، وَتَمْيِيزُ الْقَبَائِلِ فِي ذِيِ الْقَعْدَةِ، وَتُسْفَكُ الدِّمَاءُ فِي ذِيِ الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمِ، وَمَا الْمُحَرَّمُ»، يَقُولُهَا ثَلَاثًا، «هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ، يُقْتَلُ النَّاسُ فِيهَا هَرْجًا هَرْجًا» قَالَ: قُلْنَا: وَمَا الصَّيْحَةُ يَا رَسُولَ اللہ؟ قَالَ: “هَدَّةٌ فِي النِّصْفِ مِنْ رَمَضَانَ لَيْلَةَ جُمُعَةٍ، فَتَكُونُ هَدَّةٌ تُوقِظُ النَّائِمَ، وَتُقْعِدُ الْقَائِمَ، وَتُخْرِجُ الْعَوَاتِقَ مِنْ خُدُورِهِنَّ، فِي لَيْلَةِ جُمُعَةٍ، فِي سَنَةٍ كَثِيرَةِ الزَّلَازِلِ، فَإِذَا صَلَّيْتُمُ الْفَجْرَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَادْخُلُوا بُيُوتَكُمْ، وَأغْلِقُوا أَبْوَابَكُمْ، وَسُدُّوا كُوَاكُمْ، وَدِثِّرُوا أَنْفُسَكُمْ، وَسُدُّوا آذَانَكُمْ، فَإِذَا حَسَسْتُمْ بِالصَّيْحَةِ فَخِرُّوا لِلَّهِ سُجَّدًا، وَقُولُوا: سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، سُبْحَانَ الْقُدُّوسِ، رَبُّنَا الْقُدُّوسُ، فَإِنَّ مَنْ فَعَلَ ذَلِكَ نَجَا، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ هَلَكَ”. (رقم: 638).
□فیروز الدیلمی کی روایت کا ترجمہ:
حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان میں ایک زبردست آواز آئیگی . صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ آواز رمضان کے شروع میں ہوگی، یا درمیان میں یا آخر میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نصف رمضان میں، جب نصف رمضان میں جمعہ کی رات ھوگی تو آسمان سے ایک آواز آئیگی…. جس سے ستر ہزار لوگ بےہوش ھو جائیں گے اور ستر ھزار بہرے ہو جائیں گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تو آپ کی امت میں سے اس آواز سے محفوظ کون رہےگا؟ فرمایا جو (اس وقت) اپنے گھروں میں رہے اور سجدے میں گر کر پناہ مانگے اور زور زور سے تکبیریں کہے. پھر اسکے بعد ایک اور آواز آئیگی. پہلی آواز جبریل علیہ السلام کی ہوگی اور دوسری آواز شیطان کی ھوگی. (واقعات کی ترتیب یہ ہے) آواز رمضان میں ہوگی اور معمعہ شوال میں ھوگی اور قبائل عرب ذی قعدہ میں بغاوت کرینگے اور ذی الحجہ میں حاجیوں کو لوٹا جائیگا. رہا محرم کا مہینہ… تو محرم کا ابتدائ حصہ میری امت کیلۓ آزمائش ہے اور اسکا آخری حصہ میری امت کیلئے نجات ھے اس دن وہ سواری مع کجاوے کے جس پر سوار ہو کر مسلمان نجات پائےگا، اسکے لئے ایک لاکھ سے زیادہ قیمت والے مکان سے بہتر ہوگی…. جہاں کھیل و تفریح کا سامان ہوتا ہے.
بحوالہ ظہور مھدی (علیہ الرضوان) تک ، تالیف ابوعبداللہ آصف مجید نقشبندی صفحہ: 71)
مولانا عاصم عمر حفظہ اللہ نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب تیسری جنگ عظیم اور دجال میں تحریر کیا ہے.
(یہ ترجمہ ہمیں سوال کی شکل میں موصول ہوا ہے)
■ ان روایات کی اسنادی حیثیت:
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی سند کی جرح:
أخرج نعيم بن حماد في الفتن: حَدَّثَنَا أَبُوعُمَرَ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْحَارِثِ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، رَضِيَ الله عَنْهُ.
اس سند میں حماد بن واقد ابوعمر الصفار راوی کمزور ہے.
عمرو بن علی کہتے ہیں کہ یہ زیادہ غلطیاں کرتا تھا اور اس سے روایات نقل نہیں کی جا سکتیں.
◇ قال عنه عمرو بن علي الفلاس: كثير الخطأ، كثير الوهم، ليس ممن يروي عنه.
امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے.
◇ قال عنه محمد بن إسماعيل البخاري: منكر الحديث.
ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ جب روایت نقل کرنے میں منفرد ہو تو حجت نہیں.
◇ عنه أبوحاتم بن حبان البستي: لا يجوز الاحتجاج بخبره إذا انفرد.
عبدالوہاب بن حسین
امام حاکم نے خود اس راوی کو مجہول قرار دیا ہے.
○ الحارث الہمدانی:
١. ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ حجت نہیں.
◇وقال أبوحاتم: لا يحتج به.
٢. ابن عدی کہتے ہیں کہ ان کی عمومی روایات غیرمحفوظ ہوتی ہیں.
◇وقال أبوأحمد بن عدي: عامة ما يرويه غير محفوظ.
٣. شعبی کہتے ہیں کہ حارث اعور کذاب ہیں.
◇قال الشعبي: حدثني الحارث الأعور وأشهد أنه أحد الكذابين.
٤. ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ غالی شیعہ اور کمزور راوی تھا.
◇وقال أبوحاتم بن حبان: كان الحارث غاليا في التشيع، واهيا في الحديث.
اگرچہ بعض محدثین نے حارث اعور کی توثیق بھی کی ہے.
اس روایت پر امام ذہبی کا تبصرہ:
یہ روایت موضوع ہے.
¤ قال الذهبيّ: ذا موضوع.
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی سند:
١. مرفوع سند:
فَأَما حَدِيث أبي هُرَيْرَة: فَأَنْبَأَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الْحَافِظُ أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ أَنْبَأَنَا الْعَتَيقِيُّ أَنْبَأَنَا يُوسُفُ بْنُ أَحْمَدَ حَدَّثَنَا الْعُقَيْلِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدِ بْنِ دَاوُدَ الأَزْدِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الْمَوْصِلِيُّ حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ أَبِي صَغِيرٍ الْهَمْدَانِيُّ عَنِ الأَوْزَاعِيِّ حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَاحِد بْنُ قَيْسٍ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ…..
وَقد رَوَى مَسْلَمَةُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَن أبي هُرَيْرَة عَن النَّبِي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
٢. موقوف سند:
وروى إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ لَيْثٍ عَنْ شَهْمِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا قَالَ:….
اس سند میں ایک راوی ہے:
○عبدالواحد بن قیس:
یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ یہ نہ ہونے کے برابر ہے.
◇قَالَ يَحْيَى بْن سَعِيد: عَبْدالْوَاحِد بْن قَيْس شبه لَا شيء.
○دوسرے راوی مسلمہ بن علی ہے:
١. امام یحیی کہتے ہیں کہ یہ کچھ بھی نہیں.
◇فَقَالَ يَحْيَى: مسلمة لَيْسَ بشيء.
٢. امام نسائی اور دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
◇وَقَالَ النَّسَائِيّ وَالدَّارقطني: مَتْرُوك.
٣. امام حاکم کہتے ہیں کہ مسلمہ قابلِ دلیل راوی نہیں.
◇قال الحاکم: مسلمہ ممن لاتقوم به الحجة.
●فیروز الدیلمی والی سند:
وَأما حَدِيث فَيْرُوز الديلمي:
أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَاصِرٍ أَنْبَأَنَا أَبُوعَلِيِّ الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ الْحَدَّادُ حَدَّثَنَا أَبُونُعَيْمٍ الْحَافِظُ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَحْمَدَ الطَّبَرَانِيُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْن عَبْدِالْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ بْنُ الضَّحَّاكِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ الأَوْزَاعِيُّ عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ عَنْ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيِّ.
١. عقیلی کہتے ہیں کہ اس سند میں عبدالوہاب بےحیثیت راوی ہے.
◇وَقَالَ الْعُقَيلِيّ: عَبْدالْوَهَّاب لَيْسَ بشيء.
٢. عتیقی کہتے ہیں کہ یہ متروک راوی ہے.
◇وَقَالَ الْعَتِيقِي: هُوَ مَتْرُوك الْحَدِيث.
٣. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ روایات چوری کرتا تھا.
◇وَقَالَ ابْن حِبَّانَ: كَانَ يسرق الحَدِيث، لَا يَحِلُّ الاحْتِجَاجُ بِهِ.
٤. دارقطنی کہتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے.
◇وَقَالَ الدَّارقطني: مُنكر الْحَدِيث.
■اس روایت پر محدثین کا مجموعی کلام:
١. امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ روایت من گھڑت ہے.
¤ قال الذهبي: ذا موضوع.
٢. ابن جوزی کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت جھوٹ ہے.
¤ قال ابن الجوزي عن رواية أبي هريرة رضي الله عنه: هَذَا حَدِيث مَوْضُوع عَلَى رَسُول الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
٣. فیروز الدیلمی والی روایت صحیح نہیں.
¤ وعن رواية فيروز الديلمي: هَذَا حَدِيث لَا يَصح.
٤. امام عقیلی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی کسی ثقہ راوی سے کوئی اصل یا سند موجود نہیں.
¤ وقال العقيلي: لَيْسَ لِهَذَا الْحَدِيث أصل عَنْ ثِقَة وَلَا من وَجه ثَابت.
٥. امام حاکم کہتے ہیں کہ اس حدیث کا متن بہت انوکھا ہے.
¤ وقال الحاكم: هُوَ حَدِيثٌ غَرِيبُ الْمَتْنِ.
خلاصہ کلام
یہ روایت اپنی شہرت کے باوجود سند کے لحاظ سے درست نہیں، لہذا اس کو بیان کرنا یا آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٩ مئی ٢٠٢٠ کراچی