تنبیہ نمبر 297

 یکم محرم کو 113 مرتبہ بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا

سوال
گذشتہ چند سالوں سے یکم محرم کو بسم اللہ لکھنے والے عمل پر لوگوں کا اصرار کافی بڑھ گیا ہے، یہانتک کہ بعض لوگوں نے فوٹو کاپیاں کروا کر اپنے نام سے چھپوا کر لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا ہے، اور اس کیلئے جامعہ بنوری ٹاؤن کے فتوے کو بنیاد بنایا جارہا ہے
 اس کے بارے میں آپ کی رائے اور تحقیق مطلوب ہے…

الجواب باسمه تعالی

یہ عمل ہمارے ہاں مفتی شفیع صاحب رحمه اللہ کی کتاب “جواہر الفقہ” سے نقل کیا جاتا ہے.

مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمه اللہ “جواھر الفقہ” میں لکھتے ہیں:

“جو شخص محرم کی پہلی تاریخ کو ایک سو تیرہ (113)  مرتبہ پوری “بسم اللہ الرحمن الرحیم” کاغذ پر لکھ کر اپنے  پاس رکھےگا وہ ہر طرح کی آفات ومصائب سے محفوظ رہےگا، مجرب ہے۔” (جواھر الفقہ: 2/187)

اکثر لوگ اس عمل کو مفتی صاحب کا مجرب عمل کہہ کر نقل کرتے ہیں، جبکہ یہ عمل مفتی شفیع صاحب نے شمس المعارف نامی کتاب سے نقل کیا ہے، اور اس کتاب میں بسم اللہ کا فقط یہی ایک عمل منقول نہیں بلکہ بسم اللہ کے بہت سے اعمال اور خواص منقول ہیں، جن میں سے چند اعمال مندرجہ ذیل ہیں:

 ■ خواص بسم اللہ الرحمن الرحيم:
 ١. پہلا عمل:
 حاجات کی تکمیل اور بادشاہوں کی نگاہ میں محترم ہونا:

جمعرات کو روزہ رکھے، کھجور اور زیتون کے تیل سے افطار کرے، پھر مغرب کی نماز پڑھے، اور بسم اللہ کو 121 بار پڑھے، پھر پڑھتا چلا جائے یہانتک کہ سوجائے، جمعہ کی صبح فجر کی نماز پڑھے اور 121 بار پڑھ لے، پھر مشک، زعفران اور گلاب کے پانی سے اس کو لکھ لے، اور اس کاغذ کو عود اور عنبر کی دھونی دے، جو شخص یہ عمل کرےگا قسم کھائی جاسکتی ہے کہ وہ لوگوں کی نگاہ میں چاند کی طرح محترم ہو جائےگا، اس کی ہیبت ہوگی اور ہر شخص اس سے محبت کرےگا اور اس کی ضرورت پوری کرےگا، اس کو لکھنے کا طریقہ یوں ہے: ب س م ا ل ل ه ا ل ر ح م ن ا ل ر ح ي م

121 بار ایسے لکھیں۔موضوعات پر کتب لکھی ہیں

□ لقضاء الحوائج والدخول على الحكام: أن من أراد ذلك فليصم الخميس، ويفطر على الزيت والتمر، ويصلي المغرب، ويقرؤها مائة وإحدى وعشرين مرة، ثم يقرؤها من غير عدد إلى أن يغلب عليه النوم، فإذا أصبحت يوم الجمعة، فصل الصبح واتلها العدد المذكور، واكتبها في كاغد بمسك وزعفران وماء ورد، وبخرها بعود وعنبر، وكتابتها العدد المذكور، فو اللہ الذي لا إله إلا هو ما حملها رجل أو امرأة إلا وصار في أعين الناس كالقمر ليلة البدر، وكان عزيزا مهابا وجيها مطاعا، وكل من رآه أحبه وقضى حاجته، وألقى حبه في قلوب الخلق وهذه صفة كتابتها: ب س م ا ل ل ه ا ل ر ح م ن ا ل ر ح ي م تكتبها مائة وإحدى وعشرين مرة، وكتابتها متصلة طريقة أخرى.
 ٢. دوسرا عمل:
 کشادگی رزق کیلئے:

اگر ہرن کی کھال پر 121 مرتبہ مشک، زعفران، گلاب کا پانی اور دیگر اشیاء سے لکھ کر کوئی رزق کی تنگی کا شکار شخص رکھےگا تو اس کے رزق میں وسعت ہوگی، اور اس کے قرضے اتر جائینگے، اور ہر مشکل سے حفاظت ہوگی.

□ وإذا كتبت في رق غزال مائة وإحدى وعشرين مرة بمسك وزعفران وماء ورد والبخور قسط وميعه ولبان وجاوي وحمله المقتر عليه في الرزق فتح اللہ تعالى عليه ووسع رزقه، وإن حملها مديون أوفى اللہ تعالى دينه وكانت له أمانا من كل مكروه.
 ٣. تیسرا عمل:
 بیماری اور ولادت کی سہولت کیلئے:

اگر کسی شیشے کے برتن میں 40 بار لکھ لیا جائے، اور اس کو زمزم کے پانی یا کسی میٹھے کنویں کے پانی سے دھو کر پی لیا جائے، اور کسی بیمار کو پلایا جائے تو اس کی بیماری دور ہو جائےگی، اور اگر کسی خاتون کیلئے ولادت میں مشکل ہو تو وہ مشکل ختم ہو جائےگی

□ وإذا كتبها في جام زجاج أربعين مرة ومحاها بماء زمزم أو ماء بئر عذب وشرب من ذلك الماء أي مريض كان عافاه اللہ تعالى. وإذا شربت منه متعسرة عن الولادة وضعت حالا.
 ٤. چوتھا عمل:
 گھر اور دکان کی حفاظت اور برکت کیلئے:

اگر 35 بار لکھ کر کسی مکان میں لٹکایا جائے تو وہ گھر شیطان اور جنات سے محفوظ ہوگا اور اس کی برکت بڑھ جائےگی، اور اگر اسی پرچے کو کسی دکان میں لٹکایا جائے تو اس دکان کی برکت بڑھ جائےگی.

□ وإذا كتبت في ورقة خمسة وثلاثين مرة وعلقت في البيت لم يدخله شيطان ولا جان وتكثر فيه البركة. وإذا علقت تلك الورقة في دكان كثر زبونه وزاد ربحه وكثرت بضاعته وأعمى الله عنه أعين الناظرين.
 ٥. پانچواں عمل:
 عمر بھر کی حفاظت:

اگر محرم کی پہلی تاریخ کو 130 بار لکھ کر اپنے پاس رکھ لیا جائے تو اس شخص اور اس کے گھر والوں کو عمر بھر کوئی تکلیف نہ پہنچے.

□ وإذا كتبت في أول يوم من المحرم في ورقة مائة وثلاثين مرة وحملها إنسان لا يناله مكروه وأهل بيته مدة عمره.
 ٦. چھٹا عمل:
 بےاولاد کا علاج:

اگر بسم اللہ 110 مرتبہ لکھ کر کسی عورت بےاولاد عورت کو دی جائے، تو اس بسم اللہ کی برکت سے اس کا حمل ٹھہرےگا، اور اس کاغذ کو ساٹھ دن پاس رکھے تو نیک صالح اولاد ہوگی، اور حمل کی کوئی تکلیف نہ ہوگی.

□ وإذا كتبت ۱۱۰ مرة للمرأة التي لا يعيش لها ولد، والعاقر التي لم تحمل بعد طهرها من الحيض ثلاثة أيام، وحملت الورقة ووطئها الزوج فإنها تحمل بإذن الله تعالى، ولا تضع الورقة إلا بعد ستين يوما فإنها تحمل بولد صالح ولا ترى لحمله ألما ولا مشقة بإذن الله تعالى.
 ٧. ساتواں عمل:
 اولاد زندہ رہنے کا عمل:

اگر بسم اللہ 61 بار لکھی جائے اور جن کی اولاد زندہ نہ رہتی ہو ان کو دے دیا جائے، تو اولاد زندہ رہےگی.

□ وإذا كتبت إحدى وستين مرة وحملها من لا يعيش أولادها عاشوا، وقد جرب ذلك وصح، واللہ على كل شيء قدير.
 ٨. آٹھواں عمل:
 کھیتوں کی حفاظت کا عمل:

اگر بسم اللہ کو 101 مرتبہ لکھ کر کسی کھیت میں دفن کردیا جائے تو اس کھیت کی فصل بڑھےگی اور وہ کھیت محفوظ رہےگا.

□ وإذا كتبت في ورقة مائة مرة وواحدة ودفنت في الزرع خصب ذلك الزرع وحفظ من جميع الآفات.
 ٩. نواں عمل:
 میت کو عذاب سے محفوظ رکھنے کا عمل:

اگر بسم اللہ کو 70 بار لکھ کر میت کے ساتھ رکھ دیا جائے تو میت عذاب قبر سے محفوظ ہوگی، اور اس کیلئے قیامت تک نور ہوگا.

□ وإذا كتبت سبعين مرة ووضعت مع الميت في كفنه أمن من هول منكر ونكير، وكانت له نورا إلى يوم القيامة.
کتاب شمس المعارف کا تعارف اور درجہ:

کتاب “شمس المعارف و لطائف العوارف” حضرت شیخ ابوالعباس احمد بن علی البونی کی تصنیف ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ پہلی جلد کا نام شمس المعارف الکبری جبکہ دوسری جلد کا نام شمس المعارف الصغری ہے۔

عملیات و تعویذات اور اوراد و وظائف کے فن پر یہ سب سے زیادہ مشہور اور مستند عربی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ یہ اسماء اللہ الحسنیٰ اور آیات قرآنی و حروف تہجی کے خواص و اسرار و امور پر بےمثال کتاب ہے۔ (ویکیپیڈیا)

اس کتاب کے مصنف:

أحمد علی بن یوسف البونی الجزائر میں پیدا ہوئے، تیونس میں تعلیم پائی، مصر میں رہے اور وہیں انتقال ہوا، اپنے زمانے کے اکابر علماء سے ملاقاتیں کیں، جیسے ابن بشکوال، ابوالفرج ابن جوزی، ابن عساکر اور ابوطاہر السلفی.

□ أحمد بن علي بن يوسف البوني المالكي (بحدود 520هـ – 622هـ) صوفي وكاتب جزائري. ولد في مدينة بونة (عنابة) بالجزائر وعاش في مصر وتوفي بالقاهرة. كتبه كانت تستعمل حتى القرن الواحد والعشرين منهم سر الحكم وشمس المعارف الكبرى.
 ○ اس کتاب کے بارے میں رائے:

شمس المعارف کتاب میں موجود جادوئی أعمال اور تسخیرات کی وجہ سے بعض لوگوں نے مصنف کو جادوگر قرار دے کر اس کتاب کے پڑھنے کو حرام قرار دیا ہے.

جبکہ دیگر ایک طبقہ شیخ بونی کو اولیاء اللہ میں شمار کر کے اس کتاب کو ان کی کرامت قرار دیتے ہیں۔

انقسم العلماء في تعريفهم للبوني إلى فريقين، فمنهم من كفره وقال أنه ساحر، ومنهم من قال إنه من الأولياء.
□ يقول الشيخ محمد بن شمس الدين: وهو ساحر مشرك. بل أظن أن كل السحرة اليوم قد تربوا على كتابه شمس المعارف الكبرى.
□ قال يوسف النبهاني عنه: من كبار المشايخ ذوي الأنوار والأسرار، وممن أخذ عنه المرسي، فمن كراماته أنه كان مجاب الدعوة.
 ■ اس کتاب میں موجود أعمال کا حکم:

أعمال تین طرح کے ہیں:

 ١.  جو اعمال قرآن و حدیث سے ثابت ہیں، ان کو ضرور التزام کے ساتھ کیا جائے.

 ٢.  جو قرآن و حدیث سے ثابت نہیں لیکن درست ہیں، ان اعمال کو بغیر التزام اور پابندی کے کبھی کیا جائے اور کبھی چھوڑا جائے تاکہ نیا طریقہ نہ بن جائے.

 ٣.  وہ اعمال جو نامعلوم اور مجہول اعمال ہیں، ان سے اجتناب کیا جائے.

 یکم محرم الحرام والا عمل

مذکورہ عمل قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، نہ ہی شرعاً یہ فرض، واجب، مسنون، اور مستحب ہے، بلکہ از قبیل مجربات، مباح اور جائز عمل ہے، کرسکتے ہیں، لیکن ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک کے حق میں یہ عمل مؤثر اور فائدہ مند ہو۔

فی زمانہ عوام الناس جس طرح اس عمل میں حد درجہ دلچسپی لے رہے ہیں اس کا ترک کردینا اور اسے نظر انداز کردینا بہتر معلوم ہوتا ہے، ورنہ ذرائع ابلاغ کی تیز رفتاری کے اس دور میں آئندہ چند سالوں میں عوام الناس اسے یکم الحرام کا ایک لازمی جزو سمجھ لیں گے، ویسے بھی امت کے فقہاء نے کسی بھی مستحب عمل کے متعلق لکھا ہے کہ اگر لوگ اسے ضروری سمجھنے لگیں تو اس کا ترک لازم ہوجاتا ہے، جبکہ مذکورہ عمل تو صرف مجرب ہے، مستحب بھی نہیں ہے،

لہٰذا جب اس میں عوام الناس کا اس درجہ غلو ہونے لگے کہ رسم کی شکل بن جائے اور اسے ضروری سمجھا جانے لگے (جو کہ تقریباً ہورہا ہے) تو اس کا ترک کردینا بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا ۔

الإصرار علی المندوب یبلغہ إلی حد الکراہۃ۔ (سعایۃ ۲؍۲۶۵، الدر المختار، باب سجدۃ الشکر / قبیل باب صلاۃ المسافر ۲؍۱۲۰ کراچی، ۲؍۵۹۸ زکریا)
قال الطیبي: وفیہ من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزمًا، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب من الشیطان من الإضلال، فکیف من أصر علی أمر بدعۃ أو منکر۔ (مرقاۃ المفاتیح ۲؍۱۴، فتح الباري ۲؍۳۳۸)

 منقول

خلاصہ کلام

شمس المعارف سے منقول بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے خواص والے أعمال کی کوئی سند یا حوالہ موجود نہیں، بلکہ اس کو زیادہ سے زیادہ مجربات کہا جا سکتا ہے، اور مجربات کا حکم یہی ہے کہ اس پر انفرادی عمل کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کی دعوت کو عام کرنا اور اس کو سنت کی طرح بار بار لوگوں میں پھیلانا یہ فقہی اعتبار سے درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٦ اگست ٢٠٢٠ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں