بیٹی کو ترجیح دینا
سوال
محترم مفتی صاحب!
کافی دنوں پہلے آپ سے ایک روایت کے بارے میں پوچھا تھا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی پھل گھر لاؤ تو پہلے بیٹی کو دو..
اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ روایت من گھڑت ہے، لیکن جامعہ بنوری ٹاؤن کے فتوے میں اس کو باقاعدہ حدیث کے طور پر نقل کیا گیا ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب باپ کوئی چیز لے کر گھر جائے تو بچوں میں سے پہلے بیٹی کو دے.
(فتوی نمبر: 143710200023
دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن)
آپ سے اسکی تحقیق مطلوب ہے…
الجواب باسمه تعالی
سوال اور فتوے میں موجود روایت مختلف کتب میں مختلف الفاظ کے ساتھ منقول ہے.
١. پہلی روایت:
جس شخص نے بازار جا کر کوئی چیز خریدی اور اس کو لے کر گھر آیا، اور وہ چیز اپنے بیٹوں کے بجائے بیٹیوں کو دی، تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظرِ کرم فرمائینگے، اور جس کی طرف اللہ تعالیٰ نظرِ کرم فرماتے ہیں اس کو عذاب نہیں دیتے.
□ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ خَرَجَ إِلَى سُوقٍ مِنْ أَسْوَاقِ الْمُسْلِمِينَ، فَاشْتَرَى شَيْئًا، فَحَمَلَهُ إِلَى بَيْتِهِ، فَخَصَّ بِهِ الْإِنَاثَ دُونَ الذُّكُورِ، نَظَرَ الله إِلَيْهِ، وَمَنْ نَظَرَ الله إِلَيْهِ لَمْ يُعَذِّبْهُ.
٢. دوسری روایت:
جو شخص بازار سے کوئی پھل اپنے بچوں کیلئے لائے وہ صدقہ اٹھا کر لانے والے کی مانند ہے، اس کو چاہیئے کہ پہلے بچیوں کو دے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بچیوں پر نرمی کا معاملہ فرمایا ہے، اور جو بچیوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ فرمائے، گویا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ڈر سے رو پڑا، اور جو اللہ تعالیٰ کے ڈر سے رو پڑا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائیں گے، اور جس نے اپنی بچیوں کو خوش کیا، اللہ تعالیٰ اس کو غم کے دن خوش کرینگے.
□ من حمل طُرْفةً من السوقِ إلى ولدِه كان كحاملِ صدقةٍ حتى يضعَها فيهم وليبدأْ بالإناثِ قبلَ الذكورِ فإن اللهَ عَزَّوَجَلَّ رقَّ للإناثِ، ومن رقَّ لأنثى كان كمن بكى من خشيةِ اللهِ عَزَّوَجَلَّ ومن بكى من خشيةِ اللهِ عَزَّوَجَلَّ غُفِرَ له ومَنْ فرَّح أُنثى فرَّحه اللهُ عَزَّوَجَلَّ يومَ الحُزنِ.
– الراوي: أنس بن مالك.
– المحدث: ابن حبان.
– التخريج: أخرجه ابن حبان في “المجروحين” (1/290)، وابن الجوزي في “الموضوعات” (2/276) واللفظ لهما، وابن عدي في “الكامل في الضعفاء” (4/240) باختلاف يسير. أخرجه الخرائطي بسند ضعيف جدا.
■ ان روایات کی اسنادی حیثیت:
○ پہلی روایت کی تحقیق:
١. اس روایت کو امام غزالی نے احیاء العلوم میں نقل کیا، اور علامہ عراقی نے اس پر ضعیف کا حکم لگایا.
¤ رواه أنس بن مالك، نقله العراقي في تخريج الإحياء وحكم عنه بأن إسناده ضعيف.
٢. امام سبکی نے اس روایت کو نقل کرکے فرمایا کہ اس کی کوئی سند نہیں.
¤ رواه أنس بن مالك، نقله السبكي (الابن) في طبقات الشافعية الكبرى وحكم عنه بأنه: لم أجد له إسنادا.
٣. شیخ البانی نے بھی اس روایت کو نقل کرکے لکھا ہے: ما لا أصل له فی الاحیاء.
اس روایت کو خرائطی نے سند کے ساتھ نقل کیا ہے.
□ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ دَاوُدَ، حَدَّثَنَا أَبُوجَعْفَرٍ الرَّاسِبِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِالله، وَعَبْدُالله بْنُ وَاقِدٍ قَالَا: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ خَرَجَ إِلَى سُوقٍ مِنْ أَسْوَاقِ الْمُسْلِمِينَ، فَاشْتَرَى شَيْئًا، فَحَمَلَهُ إِلَى بَيْتِهِ، فَخَصَّ بِهِ الْإِنَاثَ دُونَ الذُّكُورِ، نَظَرَ الله إِلَيْهِ، وَمَنْ نَظَرَ الله إِلَيْهِ لَمْ يُعَذِّبْهُ.
اس سند میں ابوجعفر الراسبی مجہول ہے، اور یزید الرقاشی انتہائی کمزور راوی ہے.
١. ابن حبان المجروحون میں لکھتے ہیں کہ اچھا آدمی تھا، لیکن حدیث کا علم نہ تھا، لہذا اس کی روایت نقل کرنا اور اس کو دلیل بنانا جائز نہیں.
◇ يزِيد الرقاشِي: هُوَ يزِيد بن أبان من أهل الْبَصْرَة، كنيته أَبُوعَمْرو، يروي عَن أنس بن مَالِك، روى عَنْهُ أهل الْبَصْرَة والعراقيون، وَكَانَ من خِيَار عباد الله من البكائين بِاللَّيْلِ فِي الخلوات والقائمين بالحقائق فِي السبرات مِمَّن غفل عَن صناعَة الْحَدِيث وحفظها واشتغل بِالْعبَادَة وأسبابها حَتَّى كَانَ يقلب كَلَام الْحسن فَيَجْعَلهُ عَن أنس عَن النَّبِي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ لَا يعلم، فَلَمَّا كثر فِي رِوَايَته مَا لَيْسَ من حَدِيث أنس وَغَيره من الثِّقَات بَطل الِاحْتِجَاج بِهِ فَلَا تحل الرِّوَايَة عَنهُ إِلَّا على سَبِيل التَّعَجُّب.
٢. أحمد بن زہیر کہتے ہیں کہ یحیى بن معین کہتے تھے کہ یہ اچھا آدمی ہے لیکن اس کی روایت کسی قابل نہیں.
◇ أَحْمَدَ بْنَ زُهَيْرٍ قَالَ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ قَالَ: رَجُلٌ صَالِحٌ لَكِنَّ حَدِيثه لَيْسَ بِشَيْء.
○ دوسری روایت کی تحقیق:
اس روایت کا بنیادی راوی حماد بن عمرو النصیبی ہے، اس کے بارے میں محدثین کے اقوال بہت سخت ہیں:
١. ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ روایات گھڑتا تھا، اس کی روایات لکھنا درست نہیں.
◇ حَمَّاد بْن عَمْرو النصيبي، كنيته أَبُو إِسْمَاعِيل، يضع الْحَدِيث وضعا عَلَى الثِّقَات، روى عَنهُ بن كاسب، لَا تحل كِتَابَة حَدِيثه.
٢. یحیى بن معین نے فرمایا کہ یہ بلکل بیکار راوی ہے.
◇ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ مَحْمُودٍ يَقُولُ سَمِعْتُ الدَّارِمِيَّ يَقُولُ قُلْتُ لِيَحْيَى بْنِ مَعِينٍ حَمَّادُ بْنُ عَمْرٍو النَّصِيبِيُّ قَالَ: لَيْسَ بِشْيَءٍ.
ابن جوزی الضعفاء والمتروکین میں لکھتے ہیں:
٣. یحيی بن معین نے اس کو جھوٹا قرار دیا.
◇ قَالَ يحيى: يكذب وَيَضَع الحَدِيث.
٤. امام بخاری نے اس کو منکر الحدیث کہا.
◇ وَقَالَ البُخَارِي: مُنكر الحَدِيث وَضَعفه.
٥. سعدی کہتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے.
◇ وَقَالَ السَّعْدِيّ كَانَ يكذب.
٦. ابوزرعہ کہتے ہیں کہ اس کی روایات انتہائی بیکار ہیں.
◇ وَقَالَ أَبُوزرْعَة: واهي الحَدِيث.
أبوحاتم نے یہی روایت نقل کر کے فرمایا کہ یہ باطل روایت ہے.
¤ قَالَ أَبُوحَاتِم وَهُوَ الَّذِي رَوَى عَنْ عَبْدِالله بْنِ ضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو الْمَلَطِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ حَمَلَ طَرْفَةً مِنَ السُّوقِ إِلَى وَلَدِهِ كَانَ كَحَامِلِ صَدَقَةٍ حَتَّى يَضَعَهَا فِيهِمْ وَلْيَبْدَأْ بِالإِنَاثِ قَبْلَ الذُّكُورِ فَإِنَّ الله عَزَّوَجَلَّ رَقَّ لِلإِنَاثِ وَمَنْ رَقَّ لأُنْثَى كَانَ كَمَنْ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ الله عَزَّوَجَلَّ وَمَنْ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ الله عَزَّوَجَلَّ غُفِرَ لَهُ، وَمَنْ فَرَّحَ أُنْثَى فَرَّحَهُ الله عَزَّوَجَلَّ يَوْمَ الْحزن أنباه مُحَمَّد بن المسب ثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ ثَنَا حَمَّادُ بْنُ عَمْرٍو النَّصِيبِيُّ عَنْ عَبْدِاللہ بْنِ ضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو. وَهَذَا حَدِيثٌ بَاطِلٌ لَا أَصْلَ لَهُ، وَفِي إِسْنَادِهِ أَرْبَعَةُ ضُعَفَاءَ عَبْدُالله بْنُ ضِرَارٍ وَأَبُوهُ وَحَمَّادُ بْنُ عَمْرٍو. (المجروحون لابن حبان)
خلاصہ کلام
سوال میں مذکور روایت کی تمام اسناد انتہائی کمزور اور من گھڑت ہیں، لہذا اس کی نسبت آپ علیہ السلام کی طرف کرنا، یا اسکو حدیث کہہ کر بیان کرنا یا پھیلانا درست نہیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٣٠ اگست ٢٠٢٠ کراچی