درودشریف اور چار فرشتے
سوال
ایک ویڈیو کلپ ہے جس میں ایک مولانا صاحب درودشریف کی فضیلت بیان کررہے ہیں کہ چاروں فرشتوں نے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہم آپ پر درودشریف پڑھنے والے کے ساتھ قیامت میں اکرام کا معاملہ کرینگے، جبریل نے کہا کہ جو شخص صبح شام دس بار درودشریف پڑھےگا، میں اس کو پل صراط پر سے بجلی کی چمک کی طرح پار کراؤنگا، میکائیل نے کہا کہ جو شخص صبح شام دس بار درودشریف پڑھےگا میں اس کو حوض کوثر کا پانی پلاؤنگا جس کے بعد وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا، اسرافیل نے کہا کہ جو شخص صبح شام دس بار درودشریف پڑھےگا تو میں عرش کے سامنے سجدہ کر کے اس کی کیلئے مغفرت کی دعا کرونگا یہانتک کہ اس کی مغفرت ہوجائے، عزرائیل نے کہا کہ جو شخص صبح شام دس بار درودشریف پڑھےگا، میں اس کی روح ایسے قبض کرونگا جیسے انبیاء کرام کی روح قبض کرتا ہوں..
کیا یہ فضیلت ثابت ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور فضیلت باوجود تلاش بسیار کے کسی بھی مستند کتاب میں کسی بھی صحیح یا ضعیف سند سے نہ ملی، حتی کہ من گھڑت روایات کی کتب میں بھی یہ فضیلت موجود نہیں.
ایک کتاب درة الناصحين کے حوالے سے یہ فضیلت منقول ہے، لیکن یہ ان کتب میں سے ہے کہ جن کتب کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا،
مذکورہ فضیلت کی اسنادی حیثیت:
کتاب درة الناصحین کے مصنف نے اس روایت اور اس سے پہلے کچھ اور فضائل بغیر سند کے ذکر کئے ہیں، اور زبدة الواعظین نامی کتاب کی طرف منسوب کئے ہیں، جبکہ کتاب کے حاشیے پر لکھا ہے،
لم نعثر لهم على أصل في كتب الحديث والسنة وهم من كلام القصاص
ان روایات کی کوئی اصل ہمیں حدیث اور سنت کی کتابوں میں نہ مل سکی، یہ قصہ گو لوگوں کی باتیں ہیں۔
یہ روایت سند کے لحاظ سے ثابت نہیں، لہذا اس کو من گھڑت ہی کہا جائےگا
١. پہلا نکتہ: صاحب مضمون لکھتے ہیں۔
لہذا اس تمام بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر یہ روایت موضوع و من گھڑت ہوتی تو علامہ سخاوی جیسے بلند پایہ عالم جنہوں نے معتبر و غیرمعتبر روایات میں فرق اور فتاوی حدیثیہ کے بارے میں دو کتابیں لکھیں: المقاصد الحسنۃ اور الاجوبة المرضية، وہ کس طرح اپنی کتاب میں ایسی حدیث ذکر کرسکتے ہیں جو موضوع ہو اور اسے ذکر کرنا تحقیق کے
خ هبط الملائكة الأربعة؛ جبريل، ميكائيل، إسرافيل، عزرائيل على النبى محمد صل الله عليه وسلم، فقال جبريل: يا حبيبى يا محمد! قال: نعم يا جبريل، قال: من صلى عليك عشرة صباحا وعشرة مساء خطفته من على الصراط كالبرق الخاطف، وقال ميكائيل: يا حبيبى يا محمد! قال: نعم يا ميكائيل، قال: من صلى عليك عشرة صباحا وعشرة مساء اعطيته شربة لم يظمأ بعدها أبدا. وقال إسرافيل: يا حبيبى يامحمد! قال: نعم يا إسرافيل، قال: من صلى عليك عشرة صباحا وعشرة مساءا سجدت سجدة تحت العرش لم أرفع رأسى منها حتى يغفر له. قال عزرائيل: يا حبيبى يا محمد! قال: نعم يا عزرائيل، قال: من صلى عليك عشرة صباحا وعشرة مساء أخذت روحه كما كما اقبض أرواح الانبياء”. (كتاب درة الناصحين في الوعظ والارشاد، ص:196،
لاف ہو، اس قسم کے محقق سے یہ بات بعید ہے۔
ضروری تنبیه:
احادیث مبارکہ کی تحقیق سے تعلق کی بناء پر دنیا بھر سے، اور پاکستان سے لوگ رابطے کرتے ہیں.. اس ویڈیو میں موجود دو اشخاص ایک میزبان اور دوسرے بیان کرنے والے مولانا صاحب، ان دونوں حضرات کی اس سے پہلے بھی ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں جن میں یہ حضرات اللہ تعالیٰ کے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت بیان کرنے کیلئے واضح من گھڑت روایات کا سہارا لے کر واہ واہ سمیٹتے ہیں، جبکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی ذات کی طرف جھوٹ کی نسبت کو جہنم کا ٹھکانہ قرار دیا ہے.
١. آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے متعلق جھوٹ بولنا ایسا نہیں جیسا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے متعلق بولتے ہو، بلکہ جس نے میرے متعلق جھوٹ بولا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے.
قوله صلى الله عليه وسلم: “إن كذبا علي ليس ككذب على أحد، من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار”. (رواه البخاري:1229)
٢. اور اس جھوٹ کو آگے بیان کرنے والے کو بھی جھوٹوں میں شمار کیا ہے.
وقد قال صلى الله عليه وسلم: “مَنْ حَدَّثَ عَنِّي بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ”. (رواه مسلم في مقدمة الصحيح)
امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں جھوٹی روایات بیان کرنے کی شدت سے ممانعت بیان کی گئی ہے، اور ایسی روایات بیان کرنے کی بھی ممانعت ہے کہ جس کے جھوٹے ہونے کا خدشہ ہو، تو اگر کوئی ان روایات کو بیان کرےگا گویا وہ بھی جھوٹا ہے.
قال النووي رحمه الله: فِيهِ تَغْلِيظُ الْكَذِبِ وَالتَّعَرُّض لَهُ، وَأَنَّ مَنْ غَلَبَ عَلَى ظَنِّهِ كَذِبُ مَا يَرْوِيهِ فَرَوَاهُ كَانَ كَاذِبًا.
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں کثرتِ روایات سے اس لئے اجتناب کرتا ہوں کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف جھوٹ کی نسبت نہ ہو جائے.
وعن أنس رضي الله عنه، قال: إنه يمنعني أن أحدثكم حديثًا كثيرًا، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: “من تعمد علي كذبًا، فليتبوأ مقعده من النار”. (بخاری)
خلاصہ کلام
آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی محبت کا اصل تقاضا یہی ہے کہ آپ کی ذات اقدس کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنے والوں کو روکا جائے، نہ کہ منبر، ٹی وی چینل یا سوشل میڈیا پر بیٹھ کر من گھڑت روایات بیان کرکے اپنی آخرت اور دوسروں کے اعمال برباد کرنے کا سبب بنیں.
اسی طرح مساجد کی انتظامیہ، چینل کے مالکان بھی اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ کہیں اس جھوٹ کی نسبت میں آپ برابر کے شریک تو نہیں ہورہے ہیں.. صحابہ تو احادیث کے بیان میں انتہائی احتیاط کریں، اور ہم دھڑلے سے جھوٹی روایات کی نسبت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی طرف کرتے رہیں… اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے.
《واللہ اعلم بالصواب》
《کتبه: عبدالباقی اخونزادہ》
٥ فرورى ٢٠٢١ کراچی