مساجد کیلئے مینار بنانا
سوال
محترم مفتی صاحب!
اسلام میں مینار کا حکم، اس کی حیثیت، اور موجودہ دور میں اس کے بنانے کا کیا حکم ہوگا؟ ایسی مساجد جن میں مینار نہیں ہیں کیا وہاں مینار بنانے چاہیئے، اور اس کے بنانے کی ترغیب دی جاسکتی ہے؟
(سائل: مولانا امداد الله عزیز، کراچی)
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں مسجد نبوی بلکل سادہ انداز میں تعمیر کی گئی تھی، کہ نہ محراب تھا اور نہ مینار، ستون بھی کھجور کے تنے تھے، اور چھت پر کھجور کی چھال ڈالی گئی تھی، البتہ بعد کے زمانے میں اس بات کا اہتمام کیا جانے لگا کہ مساجد میں مینار بنائے جائیں.
اسلام میں اولین مینار:
16 ہجری میں دومة الجندل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مینار (اذان کی جگہ) بنوائی.
تعد مئذنة مسجد عمر بن الخطاب بمحافظة دومة الجندل بالجوف، أول مئذنة في الإسلام، وأمر ببنائها عندما كان متجهاً لبيت المقدس عام 16 للهجرة.
ابن ابی العز کہتے ہیں کہ پہلا مینار اذان کیلئے مصر میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں بنایا گیا.
فقد ذكر ابن أبي العز في شرح الطحاوية أن أول من أحدث المنارة بالمسجد للأذان هو سلمة بن خلف الصحابي، وكان أميرا على مصر في زمن معاوية.
آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں اذان کیلئے اونچی جگہ پر جانا:
ایک روایت کے مطابق حضرت زید بن ثابتؓ کی والدہ بیان کرتی ہیں: فرماتی ہیں کہ میرا گھر مسجد کے قریب کے گھروں میں سے سب سے اونچا تھا اس لئے حضرت بلالؓ اس کے اوپر چڑھ کر اذان دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ مسجد نبوی کی باقاعدہ تعمیر ہوگئی تو اس کے بعد حضرت بلالؓ مسجد کی چھت پر چڑھ کر اذان دیتے تھے اور ان کے لئے مسجد کی چھت پر ایک بلند جگہ بھی بنائی گئی تھی.
کان بیتی اطول بیت حول المسجد فکان بلال یؤذن فوقه من اول ما اذنه الی ان النبیﷺ بنی مسجده فکان یوذن بعد علی ظهر المسجد وقدر رفع له شیء فوق ظهره. (ابوداؤد(
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ سنت ہے کہ اذان منارے پر دی جائے، اور اقامت مسجد میں ہو، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ ایسا کرتے تھے.
رواه ابن أبي شيبة بسند صحيح عن عبدالله بن شقيق قال: من السنة الأذان في المنارة والإقامة في المسجد. وكان ابن مسعود يفعله.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا قیام بس اتنی دیر کا تھا کہ مؤذن منارے سے اتر کر صف تک پہنچتا.
وما رواه الإمام أحمد بسند حسن عن أبي هريرة قال: كان قيام النبي صلى الله عليه وسلم قدر ما ينزل المؤذن من المنارة ويصل إلى الصف.
امام ابن ابی شیبہ کہتے ہیں: سنت ہے کہ مؤذن اونچے منارے سے اذان دے.
فمن ذلك قول الإمام ابن أبي شيبة رحمه الله: المؤذن يؤذن على المواضع المرتفعة المنارة وغيرها.
اللجنة الدائمة سے مینار کی تعمیر کے متعلق سوال و جواب:
اسی طرح (6/254) میں ہے:
سعودی عرب کے “اللجنة الدائمة” سے مینار کی تعمیر کے متعلق سوال کیا گیا کہ “کچھ لوگ میناروں کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہیں، اور اس کو خلافِ سنت اور فضول خرچی سمجھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مینار مسجدوں کی ایک علامت بن گئے ہیں، اور بڑی بڑی لمبی عمارتوں کے درمیان چھپی ہوئی مساجد میناروں کی وجہ سے ہی پہچانی جاتی ہیں، اور مسجد اپنے بلند میناروں کے ساتھ بہت سے لوگوں کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ اتنے چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی مسلمان ابھی بھی دین پر قائم و دائم ہیں”.
تو انہوں نے جواب دیا:
“مساجد کے مینار تعمیر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بلکہ مینار بنانا مستحب ہے، اس لئے کہ اس سے مؤذن کی آواز دور تک پہنچائی جاتی ہے، اور بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجدِ نبوی کے پڑوس میں موجود گھروں کی چھت پر چڑھ کر اذان دیا کرتے تھے۔ اور مساجد میں میناروں کی تعمیر کے سلسلہ میں تمام علمائے اسلام کا اجماع ہے۔”
دارالعلوم دیوبند کا فتوی:
عنوان: مسجد کے مینار کا قرآن و حدیث سے ثبوت.
سوال: کیا مسجد کے لئے مینار ضروری ہے؟ کیا تعمیر مینار اسراف ہے؟
جواب نمبر: 56928
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 158-155/B=3/1436-U )۱)
قرآن وحدیث سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، مینار کی ایجاد بہت بعد کی ہے۔
یہ مسجد کی علامت ہے، مسجد اللہ کا گھر ہے اور ہماری مقدس عبادت گاہ اور گھروں سے امتیاز کے لئے پہچان کے لئے مینار بنایا جاتا ہے، عرف میں آج کل مسجد کی شناخت کے لئے ضروری ہی سمجھا جاتا ہے، اس کا بنانا اسراف میں داخل نہیں ہے، البتہ مسجد کا مینار بنانے کے لئے عوام سے چندہ کرکے بنایا جائے تو بہتر ہے، مسجد کی موقوفہ آمدنی سے نہ بنایا جائے، کیونکہ یہ مسجد سے علیحدہ چیز ہے۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
جامعہ اشرفیہ لاہور كا فتوی:
جواب:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسجد کی چھت پر کسی اونچی چیز پر کھڑے ہو کر اذان دی جاتی تھی۔ اسی ضرورت کی غرض سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ نے اپنے دور میں مینار تعمیر کروایا جس پر کھڑے ہو کر اذان کہی جاتی تھی۔ اس کے بعد توارثا یہ سلسلہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ مینار نے مساجد کی علامت اور نشانی کی حیثیت اختیار کر لی، نیز لائوڈ اسپیکر کو اونچی جگہ پر لگا کر زیادہ لوگوں تک آواز پہنچانے کی ضرورت بھی اس سے پوری کی جا رہی ہے، لہٰذا بطور علامت یا اسپیکر لگانے کی ضرورت سے مینار تعمیر کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلاف کی اتباع ہے، البتہ مینارے کی حیثیت فرض، واجب یا سنت کی نہیں ہے۔
وفی شرح الشیخ اسمعیل عن الاوائل للسیوطی، ان اول من رقی منارۃ مصر للاذان شرحبیل ابن عامر المرادی و بنی سلمة المنایر للاذان بامر معاویة ولم تکن قبل ذلك۔ (شامی ص ۳۸۵، ج ۱)”
(دار الافتاء، جامعہ اشرفیہ لاہور،
فتوی نمبر:346)
فتاوی قاسمیہ (ج: 18) میں ہے:
اور مینار اس لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ مسجد کی شناخت رہے تاکہ اجنبی مسافروں کو بھی پتہ چل سکے کہ یہ مسجد ہے اور اس کی کوئی مقدار بھی شریعت میں متعین نہیں ہے، اور اس زمانہ میں مینار کے اوپر مائک کے لاؤڈ اسپیکر کا ہارن رکھا جاتا ہے، وہیں سے آواز لوگوں تک پہنچتی ہے، اس لئے مسجد کے پیسہ سے ان کو بنانے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔
ویجوز أن یبنیٰ منارۃ من غلة وقف المسجد إن احتاج إلیها لیکون أسمع للجیران، وإن کانوا یسمعون الأذان بدون المنارۃ فلا. (ہندیہ، الوقف، الباب الحادی عشر فی المسجد، الفصل الثانی فی الوقف علی المسجد، زکریا قدیم ۲/۴۶۲، جدید۲/۴۱۳، البحر الرائق، کوئٹہ ۵/۲۱۵، زکریا ۵/۳۶۰) فقط واﷲ سبحانه وتعالیٰ اعلم
کتبه: شبیر احمد قاسمی عفا ﷲ عنہ
۱۱؍ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ
(الف فتویٰ نمبر:۳۹؍۱۰۳۵۷)
مینار پر بہت سارا پیسہ خرچ کرنا:
چونکہ مینار مساجد کی پہچان اور اذان کی آواز دور تک پہنچانے کی غرض سے بنائے جاتے ہیں، لہذا مینار پر یا مسجد کے متعلقات پر بےتحاشہ رقم خرچ نہ کی جائے، تاکہ ممنوع تعمیر سے بچا جاسکے.
بخاری شریف میں ہے: ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی چھت کھجور کی ٹہنیوں کی تھی، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے دور خلافت میں) مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور کہا: لوگوں کو بارش کے پانی سے محفوظ کرو، اور لال پیلے رنگ استعمال کرنے سے بچنا کہ اس سے لوگوں کی نمازوں میں خلل پیدا ہوگا۔
باب بنيان المسجد: وقال أبوسعيد: كان سقف المسجد من جريد النخل (يعني مسجد النبي صلى الله عليه وسلم)، وأمر عمر ببناء المسجد وقال: َأِكنّ الناسَ من المطر، وإياك أن تحمر أو تصفر فتفتن الناس.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک دوسرے پر فخر کرینگے اور (حقیقی) آبادکاری میں بہت ہی کم حصہ لیں گے۔
وقال أنس: يتباهون بها ثم لا يعمرونها إلا قليلا.
ابوداود (448) میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مجھے مساجد کی تشیید کا حکم نہیں دیا گیا”. ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تم مساجد کی ایسے ہی تزیین و آرائش کرو گے جیسے یہود و نصاری نے کی۔
خطابی کہتے ہیں کہ: “التشييد” کا مطلب یہ ہے کہ عمارت انتہائی بلند اور لمبی چوڑی بنائی جائے۔
وروى أبوداود (448) عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “مَا أُمِرْتُ بِتَشْيِيدِ الْمَسَاجِدِ”. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتْ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى. والحديث صححه الألباني في صحيح أبي داود.
قال الخطابي رحمه الله: التشييد: رفع البناء وتطويله.
خلاصہ کلام
مساجد میں مینار کی تعمیر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے سے شروع کی گئی تھی، اور بعد میں امت کا اس پر اجماع ہوا ہے کہ مینار مساجد کی علامت بن چکے ہیں، لہذا ایسی مساجد جو گنجان آبادیوں میں ہیں، یا عمارتوں کی وجہ سے مسجد کی پہچان مشکل ہو تو پھر مینار ضرور تعمیر کئے جائیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٩ ذوالحجہ ١٤٢٢
١٣ اگست ٢٠٢١ کراچی