حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پانچ کاروباری گُر
سوال
مندرجہ ذیل روایت کی تحقیق مطلوب ہے:
سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورین رضي الله عنه اپنے زمانے کے کامیاب اور نمایاں ترین تجار میں سے تھے۔
جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو آپ کے پاس بس ایک تلوار تھی۔ زیادہ عرصہ نہ گذرا تھا کہ آپ کا شمار مدینہ کے مالدار ترین لوگوں میں ہونے لگا۔ آپ کی دولت کا سارا دار و مدار تجارت پر تھا۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے جب آپ کے دولتمند ہونے کا راز پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا:
“كنت أعالج وأنمّي ولا أزدري ربحاً ولا أشتري شيخاً وأجعل الرأس رأسين”
آپ کے اس جواب میں آپ رضی اللہ عنہ کے دولتمند ہونے پانچ راز بیان کئے گئے ہیں:
١: أعالج
٢: وأنمّي
٣: ولا ازدري ربحاً
٤: ولا أشتري شيخاً
٥: وأجعل الرأس رأسين
آپ کے فرمان کا ترجمہ اور تشریح کچھ اس طرح بنےگی:
١: أعالج: میں معالجہ کرتا تھا یعنی اپنی تجارت پر خود کھڑا ہوتا تھا اور اس میں پیش آنے والے مسائل کا بذاتِ خود معالجہ کرتا تھا۔ یعنی میں اپنے ملازمین پر اتنا بھروسہ نہیں کرتا تھا، کیونکہ ملازم جتنا بھی پاک طینت ہو جائے مالک کی مصلحتوں کا ویسا حریص نہیں ہو سکتا جیسے مالک خود ہو سکتا ہے۔ اور یہ تاجر کیلئے بھی ایک موقعہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے گاہکوں کو اور انہیں پیش آنے والے مسائل کو اور ان کی شکایات کو خود سمجھے اور انہیں بہتر سے بہتر خدمات پیش کرے۔
٢: وأنمّي: اور بڑھوتری کیلئے لگن کے ساتھ کام کرتا تھا یعنی سرمایہ کاری کو رکنے نہیں دیتا تھا تاکہ تجارت پھلتی پھولتی رہے۔
٣: ولا ازدري ربحاً: یعنی چھوٹے سے چھوٹے منافعے کو بھی حقارت سے نہیں دیکھتا تھا۔ اس کا مقصد اور ھدف گاہک کو راغب کرنا ہوتا ہے تاکہ کام چلتا رہے اور گاہک کا دل جیتنا ہی کاروبار کی بنیاد اور اساس ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ صفت سیدنا عبدالرحمن بن عوف میں بھی مشترک تھی۔
٤: ولا أشتری شیخا: اور میں پرانی چیزیں نہیں خریدتا تھا۔ یہ ایسا کاروباری راز ہے جسے ہر تاجر کو سمجھنا چاہیئے کہ تجارت متروکہ چیزوں کی نہیں بلکہ وقت اور زمانے سے ہم آہنگ چیزوں میں کرنی چاہیئے تاکہ گاہکوں کی توجہ حاصل رہے اور وہ تسلسل کے ساتھ آتے اور خریدتے رہیں۔
٥: وأجعل الرأس رأسين: اور میں اپنی سرمایہ کاری کئی چیزوں میں کرتا تھا۔ یہ ایک انتہائی قابل غور نکتہ ہے جسے بہت ہی توجہ کے ساتھ اپنانا چاہیئے۔ سارا مال ایک ہی کام میں نہیں بلکہ کئی چیزوں میں تقسیم کر کے لگانا چاہیئے، تاکہ اگر کسی ایک سرمایہ کاری پر کوئی بحران آجائے تو کمائی کا کوئی دوسرا متبادل راستہ کھلا اور موجود رہے۔
اس طرح آپ کے فرمان کا بامحاورہ ترجمہ کچھ یوں بنےگا: میں اپنی تجارت میں درپیش مسائل کا خود معالجہ کرتا تھا، تسلسل سے سرمایہ کاری کرتا رہتا تھا، کم منافعے کو حقیر نہیں (بلکہ اسے بھی منافعہ ہی) سمجھتا تھا، پرانی متروک چیزوں میں سرمایہ کاری نہیں کرتا تھا اور اپنے سرمائے کو ایک وقت میں کئی کاموں میں لگا کر رکھتا تھا…
کیا یہ پوری روایت درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
سوال میں مذکور روایت باوجود تلاش بسیار کے کسی بھی مستند کتاب میں کسی مستند حوالے سے ہمیں نہ مل سکی، البتہ شیخ محمد الحسن الددو الشنقیطی کا ایک مضمون نیٹ پر صفات التاجر المسلم موجود ہے، جس میں اس روایت کو حدیث کہہ کر نقل کیا گیا ہے.
حديث عن عثمان بن عفان رضي الله عنه، وقد سأله رجل فقال: يا أمير المؤمنين! إنك كنت من فقراء المهاجرين فأصبحت أغنى إخوانك فبم نلت ذلك؟ فقال: كنت أعالج وأنمي ولا أزدري ربحاً ولا أشتري شيخاً وأجعل الرأس رأسين. (صفات التاجر المسلم، للشيخ محمد الحسن الددو الشنقيطي)
خلاصہ کلام
اس قول کی نسبت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف کسی بھی مستند ذریعے سے نہ مل سکی، لہذا اس کو آپ رضی اللہ عنہ کے گُر کہہ کر بلاحوالہ نقل کرنا درست معلوم نہیں ہوتا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٣٠ اکتوبر ٢٠٢١ کراچی