صحابہ کرام میں خواجہ سرا کا وجود
سوال
محترم مفتی صاحب!
ایک مضمون سامنے آیا ہے کہ آپ علیہ السلام کے صحابہ میں خواجہ سرا (ہیجڑے) بھی تھے…
کیا یہ مضمون درست ہے؟
الجواب باسمه تعالی
دورِ نبوی میں کچھ لوگ ایسے ضرور تھے، جن کو مُخَنَّث کہا جا سکتا ہے.
خنثی اور مخنث کی تعریف
خنثى
لغت عرب ميں اس شخص كو كہتے ہيں جو نہ تو خالص مرد ہو اور نہ ہى خالص عورت، يا پھر وہ شخص جس ميں مرد و عورت دونوں كے اعضاء ہوں.
اصطلاح ميں اس شخص كو كہتے ہيں جس ميں مرد و عورت دونوں كے آلہ تناسل ہوں، يا پھر جسے اصل ميں كچھ بھى نہ ہو، اور صرف پيشاب نكلنے والا سوراخ ہو.
المخنث
اس كو كہتے ہيں جو پیدائشی طور پر مرد ہو لیکن كلام اور حركات و سكنات اور نظر ميں عورت كى طرح نرمى ركھے، اس كى دو قسميں ہيں
١. پہلى قسم
جو پيدائشى طور پر ہى ايسا ہو، اس پر كوئى گناہ نہيں.
٢. دوسرى قسم
جو پيدائشى تو ايسا نہيں، بلكہ حركات و سكنات اور كلام ميں عورتوں سے مشابہت اختيار كرے، تو ايسے شخص كے متعلق صحيح احاديث ميں لعنت وارد ہے.
دور نبوی میں مخنث کا وجود
مختلف کتب میں ایسے افراد کا ذکر موجود ہے جو دور نبوی میں تھے، اور وہ عورت نما مرد تھے، ابتداء میں آپ علیہ السلام کے گھروں میں آتے تھے، کیونکہ آپ علیہ السلام کا خیال تھا کہ یہ غیر أولی الاربة ہیں (یعنی وہ لوگ جن کی عورتوں میں کوئی دلچسپی نہیں) لیکن کچھ واقعات سے معلوم ہوا کہ ان کو عورتوں کی خوبیوں اور ان کی خوبصورتی کے بارے میں اچھا خاصا علم ہے، تو پھر آپ علیہ السلام نے اپنے گھروں میں ان کے آنے پر پابندی لگادی.
بعض کو آپ علیہ السلام نے مدینہ سے باہر بھی نکالا، البتہ ضرورت کیلئے کبھی کبار ان کو مدینہ منورہ آنے کی اجازت دی.
بیهقی کی روایت
دور نبوی میں تین مخنث مدینہ منورہ میں تھے
ماتع، هدم، هیت
یہ آپ علیہ السلام کے گھروں میں آتے تھے.
طائف کے محاصرے کے موقعے پر ان میں سے ایک (ماتع) نے خالد بن ولید کے سامنے بادیہ بنت غیلان کی نسوانی تعریف کی، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا میں سمجھتا تھا کہ اس خبیث کو ان باتوں کا احساس نہ ہوگا، لہذا آج کے بعد یہ تمہارے گھروں میں نہ آئے، پھر مدینہ کے قریب آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ لوگ مدینہ بھی نہ آئیں، صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ! یہ غریب ہیں، اور مانگ کر گذارا کرتے ہیں، تو آپ علیہ السلام نے ہفتے میں ایک دن مدینہ آنے کی اجازت دی، کہ آئیں اور مانگ کر واپس چلے جائیں، ماتع ہدم اور ہیت، اسی طرح یہ لوگ آپ علیہ السلام، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ سے باہر ہی رہے.
كان المخنثون على عهد رسول الله صلی اللہ علیه وسلم ثلاثة ماتع، وهدم، وهيت، وكان ماتع لفاختة بنت عمرو بن عائذ خالة رسول الله صلی اللہ علیه وسلم، وكان يغشى بيوت النبي صلی اللہ علیه وسلم ويدخل عليهن حتى إذا حاصر الطائف سمعه رسول الله صلی اللہ علیه وسلم وهو يقول لخالد بن الوليد إن افتتحت الطائف غدا فلا تنفلتن منك بادية بنت غيلان فانها تقبل بأربع وتدبر بثمان، فقال رسول الله صلی اللہ علیه وسلم لنسائه لا أرى هذا الخبيث يفطن لهذا لا يدخل عليكن بعد هذا، قال ثم أقبل رسول الله صلی اللہ علیه وسلم قافلا حتى إذا كان بذى الحليفة، قال لا يدخلن المدينة، ودخل رسول الله صلی اللہ علیه وسلم المدينة فكلم فيه، وقيل له أنه مسكين ولابد له من شيء فجعل له رسول الله صلی اللہ علیه وسلم يوما في كل سبت يدخل، فيسأل ثم يرجع إلى منزله فلم يزل كذلك عهد رسول الله صلی اللہ علیه وسلم، وأبي بكر، وعلى عهد عمر رضی اللہ عنه ونفى رسول الله صلی اللہ علیه وسلم صاحبيه معه هدم، والآخر هيت. (البيهقي، السنن الكبرى، كتاب الحدود، باب ما جاء في نفي المخنثين)
الإصابة کی روایت
ابن حجر نے اصابہ میں ایک انه نامی مخنث کا تذکرہ کیا ہے، کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی کے رشتے کیلئے کسی خاتون کا پوچھا، تو اس نے عورت کی نسوانی خوبیاں بیان کرنی شروع کیں، آپ علیہ السلام نے جب سنا تو فرمایا کہ انہ اب تم حمراء الاسد جاؤ، وہیں رہو، مدینہ منورہ صرف عید کے موقعے پر آنے کی اجازت دی گئی.
قال ابن حجر في الاصابة أنة المخنث ذكره الباوردي وأخرج من طريق إبراهيم بن مهاجر عن أبي بكر بن حفص قال قالت عائشة لمخنث كان بالمدينة يقال له أنه ألا تدلنا على امرأة نخطبها على عبدالرحمن بن أبي بكر قال بلى فوصف امرأة إذا أقبلت أقبلت بأربع وإذا أدبرت أدبرت بثمان، فسمعه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا أنه! اُخرُج من المدينة إلى حمراء الأسد فليكن بها منزلك ولا تدخلن المدينة إلا أن يكون للناس عيد.
ابن حجر نے فتح الباری میں نقل کیا ہے کہ یہ ایک شخص تھا یا متعدد افراد تھے.
واقدی کا قول ہے کہ یہ متعدد افراد تھے، کہ هیت وہ عبداللہ بن امیہ کا غلام تھا، اور ماتع فاختہ بنت عمرو کا غلام تھا.
يقول إبن حجر في فتح الباري ج 9، ص 334) وحكى أبوموسى المديني في كون ماتع لقب هيت أو العكس أو أنهما أثنان خلافاً، وجزم الواقدي بالتعدد فإنه قال كان هيت مولى عبدالله ابن أبي أمية، وكان ماتع مولى فاختة. يتبع.
اسد الغابة کی روایت
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ازواج مطہرات کے گھروں میں مخنث آتا تھا، اور اس کو غیر اولی الإربة سمجھا جاتا تھا، ایک دن آپ علیہ السلام نے اس کو سنا کہ وہ کسی عورت کی نسوانیت بیان کر رہا ہے، تو آپ علیہ السلام نے گھر میں اس کے داخل ہونے پر پابندی لگادی.
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس کو بیداء مقام بھیج دیا، وہ ہر جمعے کو مدینہ آتا اور کچھ مانگ کر چلا جاتا.
ذكر ابن الأثير في اسد الغابة عن عائشة رضي الله عنها قالت كان يدخل على أزواج النبي صلى الله عليه وسلم مخنث، فكانوا يعدونه من غير أولى الإربة من الرجال، قالت فدخل النبي صلى الله عليه وسلم يوماً وهو عند بعض نسائه، وهو ينعت امرأة فقال إذا أقبلت أقبلت بأربع، وإذا أدبرت أدبرت بثمان! فقال النبي صلى الله عليه وسلم لا أرى هذا يعرف ما هاهنا؟ لا يدخلن عليكن. قالت فحجبوه.
وقيل إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخرجه إلى البيداء، وكان يدخل كل جمعة يستطعم ويرجع. (أسد الغابة، ج 5، ص 75، دار احياء التراث العربي)
انجشہ کی روایت
ایک کمزور روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انجشہ نامی صحابی بھی مخنث تھا، اسی لئے اس کو خواتین کی خدمت پر مامور کیا گیا تھا، اور پھر آپ علیہ السلام نے اس کو مدینے سے نکلوا دیا تھا.
ووقع في حديث واثلة بن الأسقع أن أنجشة كان من المخنثين في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخرج الطبراني بسند لين من طريق عنبسة بن سعيد عن حماد مولى بني أمية عن جناح عن واثلة بن الأسقع قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المخنثين وقال أخرجوهم من بيوتكم، وأخرج النبي صلى الله عليه وسلم أنجشة وأخرج عمر فلاناً. (الإصابة، ج 1، ص 119، رقم 261(
کیا مخنث کو قتل کیا جائےگا؟
ایک مخنث نے مہندی لگانے میں عورتوں کی مشابہت اختیار کی تو آپ علیہ السلام نے اس کو مدینے سے نکال کر بقیع بھیج دیا تھا، کسی نے عرض کیا کہ ہم اس کو قتل کردیں؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ نہیں، مجھے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے.
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بمخنث قد خضب يديه ورجليه (أي صبغها بالحناء كالنساء)، فقيل يارسول الله! هذا يتشبه بالنساء، فنفاه إلى البقيع (عقاباً له في مكان غربة ووحشة، وحماية لغيره) فقيل ألا تقتله؟ فقال «إني نهيت عن قتل المصلين». (رواه أبوداود 4928(
عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والوں پر لعنت
جو مرد عورتوں کی مشابہت اختیار کرے، اور جو عورت مردوں کی چال چلے دونوں پر لعنت.
قال البخاري رحمه الله تعالى باب إخراج المتشبهين بالنساء من البيوت، وساق حديث ابن عباس قال “لعن النبي صلى الله عليه وسلم المخنثين من الرجال والمترجلات من النساء، وقال «أخرجوهم من بيوتكم» فأخرج النبي صلى الله عليه وسلم فلاناً وأخرج عمر فلانة”. (رواه البخاري في كتاب اللباس، باب 62(
روض الأنف کی روایت
سہیلی نے ذکر کیا ہے کہ آپ علیہ السلام کے زمانے میں خواجہ سرا موجود تھے، لیکن وہ لوگ بےحیائی کے کاموں میں ملوث نہیں تھے، بس انکی نسوانیت یہ تھی کہ باتوں میں نرمی تھی، یا ہاتھوں پیروں پر مہندی لگالی، یا عورتوں کی طرح کھیل لیا.
وكان المخنثون على عهد رسول الله صلی اللہ علیه وسلم أربعة (هيت هذا، وهرم، وماتع، وإنه) ولم يكونوا يزنون بالفاحشة الكبرى، وإنما كان تأنيثهم لينا في القول، وخضابا في الأيدي والأرجل كخضاب النساء، ولعبا كلعبهن، وربما لعب بعضهم بالكرج. (السهيلي، الروض الأنف في شرح السيرة النبوية، الجزء 7، رقم الصفحة 274)
ذكر غزوة الطائف بعد حنين.
مدینے میں مزید مخنثین کا وجود
بعض مؤرخین نے آٹھ کے قریب نام ذکر کئے ہیں
١- انة
٢- انجشة
٣- بنون
٤- هيت
٥- هدم
٦- ماتع
٧- مانع
٨- صحابي آخر (بدون اسم) نفاه النبي صلی اللہ علیه وسلم الى النقيع. (بالنون)
بنون مخنث
قال الحافظ في مقدمة الفتح حديث ابن عباس في المخنثين من الرجال والمترجلات من النساء فأخرج النبي صلى الله عليه وسلم فلانا وأخرج عمر فلانا، تقدم عند المؤلف أن المخنث الذي أخرجه النبي صلى الله عليه وسلم هو هيت. وقيل مانع. وقيل إنه بنون مشددة بعدها هاء تأنيث.
ہدم یا ہرم
ابن حجر نے ہدم کا نام ذکر کیا ہے.
هدم المخنث يأتي ذكره مع هيت. (ابن حجر العسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، حرف الهاء، القسم الأول. الهاء بعدها الدال (8964) هدم المخنث)
جبکہ مجمع الأمثال میں ہرم نام مذکور ہے.
سار على عهد رسول الله صلی اللہ علیه وسلم وكان حينئذ بالمدينة ثلاثة من المخنثين هيت، وهرم، وماتع. (الميداني النيسابوري، مجمع الأمثال 1337)
خلاصہ کلام
آپ علیہ السلام کے زمانے میں یقینا ایسے مسلمان بھی موجود تھے، جن میں عورتوں کی مشابہت پیدائشی یا اختیاری طور پر موجود تھی، لیکن ان سے کسی طور پر کسی فحاشی یا بےحیائی کا صدور کسی روایت میں موجود نہیں، جبکہ ہمارے زمانے میں موجود اکثر خواجہ سرا درحقیقت مرد ہوتے ہیں، جنہوں نے عورتوں کی مشابہت اختیار کی ہوئی ہوتی ہے، یہ عمل لعنت کا موجب ہے، اور ان میں اکثریت حرام کاموں میں ملوث بھی ہوتے ہیں، جیسے ناچ گانا وغیرہ..
ان سے دور رہا جائے، اور ان کو اپنے گھروں سے دور رکھا جائے جبتک یہ توبہ نہ کرلیں.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
15 نومبر ٢٠٢١ کراچی