پشاور میں اصحاب بابا کی قبر
سوال
مفتی صاحب ہمارے علاقے پشاور کے قریب ایک صحابی جس کانام سنان بن سلمہ رضی اللہ ہے کا مزار مشہور ہے اس کے بارے میں تحقیق مطلوب ہے کہ واقعی وہی صحابی ہے یا کوئ اور ہے بڑی مہربانی ہوگی،
مولانا انوار الحق پشاور
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قبریں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں، بعض کے بارے بالتحديد یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ انہیں کی قبر ہے، لیکن اکثر جگہ کسی صحابی کی قبر کے تعین میں مورخین کا اختلاف اس قدر موجود ہے کہ ایک ہی صحابی کی قبر دنیا کے مختلف کونوں میں ہونے کے متعلق مورخین کے اقوال موجود ہیں،
پشاور اور اطراف تک صحابہ کرام کا آنا اگرچہ بعض متأخرين مورخین کے ہاں ملتا ہے، لیکن متقدمین مورخین مکران اور اطراف بلوچستان تک صحابہ کرام کے پہنچنے کو بیان کرتے ہیں،
سنان بن سلمہ رضی اللہ عنہ کا تعارف
یہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں پیدا ہوئے، ایک قول کے مطابق حنین کے فتح کے دن، اور ایک قول ہے کہ فتح مکہ کے دن،
بعض علماء نے ان کو صحابہ میں شمار کیا اور بعض نے تابعین میں شمار کیا ہے
الاصابۃ میں ابوزرعہ کا قول منقول ہے کہ یہ صحابی نہیں ہیں،
بہت بہادر تھے،
بصرے میں رہائش اختیار کی تھی،
خلیفہ کہتے ہیں کہ زیاد نے ان کو ہند کے جہاد کا امیر بنایا تھا،
ابن سعد نے ان کو تابعین میں شمار کیا،
جبکہ ابن حبان نے صحابہ میں شمار کیا
[3651] سنان بن سلمة بن المحبق الهذلي
قال بن أبي حاتم في المراسيل سئل أبو زرعة عن سنان بن سلمة أن له صحبة فقال لا ولكن ولد في عهد النبي صلى الله عليه وسلم
وعن بن الأعرابي أنه ولد يوم حنين فبشر به أبوه فقال لسنان اطعن به في سبيل الله أحب إلي منه فسماه النبي صلى الله عليه وسلم سنانا وروى وكيع عن أبيه عن سنان بن سلمة قال ولدت يوم حرب كان للنبي صلى الله عليه وسلم فسماني سنانا وقال العسكري ولد سنان بعد الفتح فسماه النبي صلى الله عليه وسلم
وكان شجاعًا بطلا
ونزل البصرة
قال خليفة ولاه زياد غزو الهند سنة خمسين وله خبر عجيب في ذلك
وذكره بن سعد في التابعين في الطبقة الأولى من أهل البصرة قال العجلي تابعي ثقة
وقال بن حبان في الصحابة مات في آخر ولاية الحجاج
الاصابۃ فی تمییز الصحابہ
مسند احمد کی ایک ضعیف روایت کے مطابق انہوں نے مکران کی جنگ میں حصہ لیا
“حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بن عبد الوارث ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ حَبِيبٍ الْعَوْذِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ غَزَوْنَا مَعَ سِنَانِ بْنِ سَلَمَةَ مُكْرَانَ ، فَقَالَ سِنَانُ بْنُ سَلَمَةَ حَدَّثَنِي أَبِي سَلَمَةُ بْنُ الْمُحَبِّقِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ” مَنْ أَدْرَكَهُ رَمَضَانُ ، لَهُ حُمُولَةٌ يَأْوِي إِلَى شِبَعٍ ، فَلْيَصُمْ رَمَضَانَ حَيْثُ أَدْرَكَهُ “
حضرت معاویہ کے زمانے میں ان کو غزوہ ہند کیلئے بھیجا گیا
قال أبو اليقظان لما قُتل عبد الله بن سوار كتب معاويةُ إلى زياد انظُرْ رجلًا يصلح لثَغْر الهند فوجه؛ فوجّه زيادُ سنانَ بن سلمة بن المحبّق الهذليّ.
طبقات لابن سعد
ابن حبان الثقات میں ان کو اہل بصرہ میں شمار کرتے ہیں، اور حجاج بن یوسف کے اخری زمانے میں انتقال ہوا
سِنَان بْن سَلمَة بْن المحبق الْهُذلِيّ ولد يَوْم حنين سَمَّاهُ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّه عَلَيْهِ وَسلم سِنَانًا كنيته أَبُو عَبْد الرَّحْمَن عداده فِي أهل الْبَصْرَة مَاتَ فِي آخر ولَايَة الْحجَّاج بْن يُوسُف الثَّقَفِيّ
ابن حبان الثقات
ابن سعد الطبقات میں لکھتے ہیں کہ ان کا انتقال عراق میں حجاج بن یوسف کے زمانے میں ہوا
– سنان بن سلمة بن المحبق الهذلي. وكان معروفًا قليل الحديث. وتوفي في آخر ولاية الحجاج بن يوسف العراق.
ابن سعد الطبقات
ابن حبان لکھتے ہیں کہ سنان بن سلمہ کا انتقال بصرہ میں ہوا
سنان بن سلمة بن المحبق الهذلي ولد يوم حنين وسماه النبي صلى الله عليه وسلم سنانا كنيته أبو عبد الرحمن يعد في الصحابة مات في ولاية الحجاج بن يوسف بالبصرة
مشاہیر علماء الامصار لابن حبان
امام ذہبی کے مطابق ان کو پچاس کی دہائی میں غزوہ ہند پر بھیجا گیا تھا،اور یہ طویل عمر تھے، اس کے بعد یہ حجاج بن یوسف کے آخری زمانے تک زندہ رہے
وَطَالَ عُمْرُهُ وَبَقِيَ إِلَى أَوَاخِرِ أَيَّامِ الْحَجَّاجِ. وَقَدْ وَلِيَ غَزْوَ الْهِنْدِ سَنَةَ خَمْسِينَ.
تاريخ الإسلام وَوَفيات المشاهير وَالأعلام – لشمس الدين أبو عبد الله بن قَايْماز الذهبي.
محمود شیت خطاب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سنان بن سلمہ کی قبر خضدار میں واقع ہے
خوزدار (بالإنجليزية Khuzdar) (بالأردوية خضدار – حيث حرف “ض” يُنطق “ز”) هي عاصمة منطقة خوزدار في وسط بلوشستان، باكستان. قبل مارس 1974، كانت خوزدار جزء من منطقة قلات. كما كانت خوزدار عاصمة مملكة مكران وفيها يقع ضريح الصحابي الفاتح سنان بن سلمة بن المحبق الهذلي.
” قادة فتح بلاد ما وراء النهر لمحمود شيت خطاب ص 231″ المتوفى 1998
کتاب مساہمۃ الہند فی دراسۃ ادب الحدیث میں سنان بن سلمہ کی شہادت کی جگہ پشاور کو قرار دیا ہے
كوهات في سنة 53 (673 م) الفتح كوهات و بونو دخل وادي بيشاور. حارب ضد قوة بوذي. استشهد سنان في هذه الحرب مع عدة رجال.
“إسحاق ، د.محمد (1976). مساهمة الهند في دراسة أدب الحديث. بنغلاديش جامعة دكا. ص 17 – 18.
افسر ولی خان نے اپنی کتاب جہاد فی سبیل اللہ میں سنان بن سلمہ کی قبر کو خضدار میں قرار دیا ہے
“سنان بن سلمة بن المحبق الهذلي صحابي جليل، وقائد عسكري كبير من كبار قادة الفتوحات الاسلامية في بداية الدولة الأموية وكانت جميع فتوحاته في المشرق الإسلامي في بلاد خراسان وبلاد ما وراء النهر، صحب النبي ﷺ حتى مات ثم نزل البصرة شارك في فتوح التحرير وضريحه في منطقة خوزدار في باكستان.”
يُنظر كتاب((جهاد في سبيل الله)) ترتيب أفسر ولي خان ص 10.و(( ثقافت سرحد)) تأليف قاري جاويد إقبال ص 20وص 215، وص 250.
عبدالرحمن بروہی نے اپنی کتاب میں ان کی قبر پشاور میں قرار دی ہے
“ذكره الدكتور عبد الرحمن البروهي في كتابه” الصحابة الكرام في باكستان”
تاریخی نکتہ
حجاج بن یوسف غالبا 95 ہجری میں مرگیا تھا، اس اعتبار سے اس کا آخری زمانہ 90 ہجری تک بنتا ہے، اور تقریباً تمام مشہور مؤرخین نے سنان بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کا زمانہ حجاج کا آخری زمانہ قرار دیا ہے، جبکہ غزوہ ہند کیلئے ان کا آنا 50 ہجری میں ہوا ہے، اس اعتبار سے ان کا جہاد والے سفر میں انتقال والی بات درست معلوم نہیں ہوتی،
خلاصہ کلام
اصحاب بابا کے نام سے مشہور قبر کسی صحابی کی ہے، اس کی حقیقت تو اللہ رب العزت ہی جانتے ہیں، یہ سنان بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی قبر ہے، اس متعلق کوئی مضبوط دلیل ہمیں نہ مل سکی، کیونکہ متقدمین مؤرخین تو ان کے بصرہ میں انتقال کے قائل ہیں، جبکہ موجودہ زمانے کے مورخین بھی خضدار اور پشاور میں اختلاف کررہے ہیں،
ہماری ذاتی رائے یہی ہے کہ اس قبر کو سنان بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی قرار دینا درست معلوم نہیں ہوتا.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
25 نومبر 2021 کراچی