تنبیہ نمبر 362

بارش میں نہانا سنت ہے

سوال
کیا بارش میں نہانا سنت ہے؟ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے اسکا ثبوت ملتا ہے کہ آپ نے ایسا کیا ہو یا اس کے بارے میں کچھ فرمایا ہو، نیز صحابہ کرام کی زندگی سے اس بارے میں کچھ ثابت ہے؟
 برائے مہربانی روایات کی روشنی میں وضاحت فرما دیجئے…

الجواب باسمه تعالی


آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے بارش میں قصدا بھیگنا اور اپنے جسم سے کپڑے کو ہٹانا صحیح روایات سے ثابت ہے، اور یہ عمل صحابہ کرام رضوان اللہ عليهم اجمعین سے بھی ثابت ہے، لہذا اس عمل کو سنت کہنا درست بھی ہے اور سنت کی نیت سے ایسا عمل کرنا مستحب بھی ہے.

 مسلم شریف کی روایت ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے بارش کیلئے اپنا کپڑا جسم سے ہٹایا.

  فعَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: أَصَابَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَطَرٌ، قَالَ: فَحَسَرَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَهُ حَتَّى أَصَابَهُ مِنْ الْمَطَرِ، فَقُلْنَا: يَارَسُولَ الله! لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ قَالَ: لِأَنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ تَعَالَى. (رواه مسلم: 898).

 امام نووی رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اولین بارش کیلئے (ستر کے علاوہ) جسم سے کپڑے کو ہٹانا مستحب ہے.

  قال الإمام النووي رحمه الله: هذا الحديث دليل لقول أصحابنا أنه يستحب عند أول المطر أن يكشف غير عورته ليناله المطر. (شرح مسلم للنووي: 6/196).

 امام قرطبی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے بارش سے برکت اور شفا حاصل فرمائی.

  وقال أبو العباس القرطبي رحمه الله: “وهذا منه صلى الله عليه وسلم تبرك بالمطر، واستشفاء به”. (المفهم لما أشكل من تلخيص صحيح مسلم: 2/546).

 امام بخاری نے باقاعدہ باب قائم کیا کہ جان بوجھ کر بارش میں بھیگنا.

  صحيح البخاري: “باب من تمطر في المطر حتى يتحادر على لحيته”. عن أنس رضي الله عنه: ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِهِ حَتَّى رَأَيْتُ الْمَطَرَ يَتَحَادَرُ عَلَى لِحْيَتِهِ. (رواه البخاري: 1033)
 حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ

مصنف نے اس باب سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی داڑھی سے پانی کا ٹپکنا اتفاقی نہیں تھا، بلکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے قصدا خود کو بارش میں گیلا فرمایا.

  قال الحافظ ابن حجر رحمه الله: كأن المصنف أراد أن يبين أن تحادُرَ المطر على لحيته صلى الله عليه وسلم لم يكن اتفاقا، وإنما كان قصدا، فلذلك ترجم بقوله: “من تمطَّر”، أي: قصد نزول المطر عليه؛ لأنه لو لم يكن باختياره لنزل عن المنبر أول ما وكف السقف، لكنه تمادى في خطبته حتى كثر نزوله بحيث تحادر على لحيته صلى الله عليه وسلم. (فتح الباري: 2/520)

 حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عمل مصنف ابن ابی شیبہ میں باقاعدہ اسی عنوان کے تحت نقل کیا گیا ہے کہ بارش میں نہانا اور گیلا ہونا.

  ابن أبي شيبة في “المصنف” (6/194-195) باب “من كان يتمطر في أول مطرة”.
عن عثمان بن عفان رضي الله عنه أنه كان يتمطر في أول مطرة.

 ابن عباس رضی اللہ عنہما کے عمل سے بھی بارش میں بھیگنا ثابت ہے.

  وعن ابن عباس رضي الله عنهما أنه كان يُخرج ثيابه حتى يخرج سرجه في أول مطرة.

 حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل ہے کہ آپ بھی بارش میں اپنے اوپر والے کپڑے ہٹا دیتے تھے.

  وعن علي بن أبي طالب رضي الله عنه أنه كان إذا أراد المطر خلع ثيابه وجلس، ويقول: حديث عهد بالعرش.

 امام بخاری نے الادب المفرد میں، امام ابن حبان نے اپنی کتاب میں اور امام بیہقی نے سنن کبری میں باقاعدہ ابواب قائم کئے ہیں  کہ بارش میں نہانا مستحب ہے، یا اولین بارش میں نہانے کا ثبوت.

  الإمام البخاري رحمه الله في كتابه “الأدب المفرد” (ص: 200) باب: “من استمطر في أول المطر”.
– ابن حبان فی “الصحيح” (13/505) باب “ذكر ما يستحب للمرء الاستمطار في أول مطر يجيء في السنة”.
– وعند البيهقي في “السنن الكبرى” (3/359): “باب البروز للمطر”.

 ابن رجب فرماتے ہیں کہ امام شافعی اور ہمارے بزرگان کا یہی قول ہے کہ موسم کی پہلی بارش میں نہانا مستحب ہے، اور حضرت انس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر استسقاء کے بعد کی بارش ہو تو اس میں بھی بھیگنا ثابت ہے اگرچہ وہ موسم کی پہلی بارش نہ ہو.

  قال الحافظ ابن رجب رحمه الله: ونص الشافعي وأصحابنا على استحباب التمطر في أول مطرة تنزل من السماء في السنة، وحديث أنس الذي خرجه البخاري إنما يدل على التمطر بالمطر النازل بالاستسقاء، وإن لم يكن أول مطرة في تلك السنة. (فتح الباري لابن رجب: 6/316)
 شیخ ابن عثيمين لکھتے ہیں

یہ سنت ثابت ہے کہ انسان بارش میں اپنے جسم کے کسی بھی حصے کو کھول دے تاکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی اتباع ہوجائے ،

قال العلامة ابن عثيمين رحمه الله  : ” وهذه السنّة ثابتة في الصحيح، وعليه فيقوم الإِنسان ويخرج شيئاً من بدنه إما من ساقه، أو من ذراعه، أو من رأسه حتى يصيبه المطر اتباعاً لسنّة النبي صلّى الله عليه وسلّم “ الشرح الممتع [ 2/458]
 بنوری ٹاؤن کے فتوے میں ملاحظہ فرمائیں:

اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ  موقعہ مناسب ہو تو بارش کے وقت اپنے جسم کے ستر کے علاوہ حصے کو کھول لینا چاہیئے؛ تاکہ بارش کا پانی جسم پر لگے اور اس تازہ پانی کی برکت حاصل ہو جو اللہ کے حکم سے آسمان سے پاک صاف حالت میں اترا ہے، اور ابھی تک زمین کی گندگی اور انسانوں کے گناہوں کے مسموم اثرات سے محفوظ ہے، دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بارش بمنزلہ رب کے قاصد کے ہے جو رب نے اپنے بندوں کی طرف بھیجا ہے، اور رب (اللہ تعالیٰ) کے بھیجے ہوئے قاصد کی تعظیم اور تکریم کرنی چاہیئے. (بنوری ٹاؤن)

خلاصہ کلام

بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، اس کے نازل ہونے پر خوش ہونا، اس کیلئے دعا کرنا کہ یااللہ اس کو نافع بنادے، اس کیلئے جسم کو کھولنا، اس کی برکت حاصل کرنا یہ سب سنت سے ثابت ہے، کبھی کبار اس پر عمل کر لینا چاہیئے.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

٢٤جون ٢٠٢٢ کراچی

اپنا تبصرہ بھیجیں