تنبیہ نمبر37

مہمان کا اکرام

سوال :آج کل یہ روایت بہت عام ہورہی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ  کے پاس آئی اور اپنے شوہر کی شکایت کی کہ وہ بہت زیادہ اپنے دوستوں کو اپنے گھر پر دعوت دیتا رہتا ہے اور وہ تھک جاتی ہے کھانے بنا بنا کے اور ان کی مہمانداری میں.

رسول اللہ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا اور وہ عورت واپس چلی گئ. کچھ دیر بعد رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کے شوہر کو بلوایا اور فرمایا: “آج میں تمہارا مہمان ہوں” وہ آدمی بہت خوش ہوا اور گھر جا کر اپنی بیوی کو بتایا کہ رسول الله ﷺ آج ہمارے مہمان ہیں.اس کی بیوی بےحد خوش ہوئی اور وقت لگا کر محنت سے ہر اچہى چیز تیار کرنے میں لگ گئی اپنے سب سے معزز مہمان رسول اللہ ﷺ کے لئے۔

اس زبردست پر تکلف دعوت کے بعد  رسول ﷺ نے اس شخص سے کہا کہ “اپنی بیوی سے کہنا کہ اس دروازے کو دیکھتی رہے جس سے میں جاؤنگا”۔ تو اس کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور دیکھتی رہی کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ کے گھر سے نکلتے ہی آپ کے پيهچے بہت سے حشرات، بچهو اور بہت سے مہلک حشرات بهى گھر سے باہر نکل گئے اور یہ عجیب و غریب منظر دیکھ کر وہ بےہوش ہوگئی۔

جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی تو آپ نے فرمایا کہ “یہ ہوتا ہے .جب تمہارے گھر سے مہمان جاتا ہے تو اپنے ساتھ ہر طرح کے خطرات، مشکلات اور آزمائشیں اور مہلک جاندار گھر سے باہر لے جاتا ہےاور یہ اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ جو تم محنت کر کے اس کی خدمت مدارت کرتی ہو”.

الجواب باسمه تعالی

یہ واقعہ اگرچہ مشہور  کیا گیا ہے لیکن درحقیقت یہ من گھڑت واقعہ ہے.حدیث کی کسی بهى معتبر یا غیرمعتبر کتاب میں یہ واقعہ موجود نہیں.

اس کے علاوہ بهى کچھ روایات مشہور کی جارہی ہیں:

1. جس گھر میں مہمان آتے جاتے رہتے ہیں الله تعالی اس گھر سے محبت کرتا ہے.

2. اس گھر سے بہتر اور کیا ہوگا جو ہر چهوٹے بڑے کے لئے کھلا رہے، ایسے گھر پر الله کی رحمت اور بخشیں نازل ہوتی رہتی ہیں.

یہ دونوں روایات کتب حدیث میں موجود نہیں.

3. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جب الله کسی کا بھلا چاہتے ہیں تو اسے نوازتے ہیں”، انہوں نے پوچھا: کس انعام سے؟ اے الله کے رسول ﷺ.آپ نے فرمایا: “مہمان اپنا نصیب لے کر آتا ہےاور جاتے ہوئے گھر والوں کے گناہ اپنے ساتھ لے جاتا ہے.

یہ روایت کئی طرق سے وارد ہے لیکن تمام طرق انتہائی کمزور ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہیں.

أما ما يسنب إليه صلى الله عليه وسلم من قوله: “إذا أراد الله بقوم خيراً أهدى لهم هدية. قالوا: وما تلك الهدية؟ قال: الضيف ينزل برزقه، ويرتحل بذنوب أهل البيت”.
١. فقد رواه الديلمي: “أخبرنا أبومحمد الحسن بن أحمد الحافظ كتابة أخبرنا أبوعثمان الصابونى ثنا عبد اللَّه بن حامد أنا ابن بلال البزاز ثنا سحفويه بن ماربار ثنا معروف بن حسان ثنا زياد الأعلم عن الحسن عن أنس به”.
قلت: معروف بن حسان منكر الحديث.
– قال ابن عدي: منكر.
٢. ثم رواه من طريق آخر: قال أبوالشيخ حدثنا محمد بن أحمد بن معدان ثنا أيوب بن على بن الهيصر ثنا زياد بن سيار عن عزة بنت أبي قرصافة عن أبيها قال: قال رسول اللَّه صلى اللَّه عليه وسلم: “إذا أراد اللَّه بقوم خيرا أهدى إليهم هدية، قالوا يا رسول اللَّه! وما تلك الهدية؟ قال: الضيف ينزل برزقه ويرتحل وقد غفر اللَّه لأهل المنزل”.
قلت: زياد بن سيار.
– قال البخاري: روى عنه الطيب بن زبان.

– قال ابن حبان: أحاديثه مستقيمة إذا كان دونه ثقة.
وفي توثيق ابن حبان ما فيه، و عزة بنت أبي قرصافة: مجهولة.

اس سند میں “عزہ” نامی راوی مجهول ہے.

٣. ورواه أيضا من طريق أبي عبدالرحمن السلمى: ثنا محمد بن نصر بن أشكاب عن الحسين بن محمد بن أسد عن منصور ابن أسد عن أحمد بن عبداللَّه عن إسحاق بن نجيح عن عطاء الخراسانى عن أبي ذر عن النبي صلى اللَّه عليه وسلم قال: “الضيف يأتى برزقه ويرحل بذنوب القوم يمحص عنهم ذنوبهم”.
قلت: آفته إسحاق بن نجيح، فهو إسحاق بن نجيح الأزدى، أبو صالح، ويقال أبو يزيد، الملطى.
– قال ابن حجر: كذوبه.
– قال أحمد: هو من أكذب الناس.
– وقال يحيى: معروف بالكذب ووضع الحديث.
– وقال يعقوب الفسوي: لا يكتب حديثه.
– وقال النسائي والدارقطني: متروك.

4. ہر وہ گھر جس میں مہمان نہیں آتا اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے.

وأما حديث: “كل بيت لا يدخل فيه الضيف لا تدخله الملائكة”.
فهذا لا أصل له عن النبي صلى الله عليه وسلم.
وإنما ذكره الغزالي في “أحياء علوم الدين” عن أنس من غير أصل.

5. مہمان جنت کا راستہ ہے.

وحديث: “الضيف دليل الجنة”. (لا وجود له(

6. حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جو شخص مہمان سے محبت کرتا ہے وہ قیامت کے دن ایسا اٹهے گا کہ اس کا چہرہ چودہویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوا ہوگا.

وقال أمير المؤمنين علي رضی اللہ عنه:
]ما من مؤمن يحب الضيف إلا ويقوم من قبره ووجهه كالقمر ليلةالبدر، فينظر أهل الجمع فيقولون: ما هذا إلا نبي مرسل! فيقول ملك: هذا مؤمن يحب الضيف ويكرم الضيف، ولا سبيل له إلا أن يدخل الجنة[
وهذا كسابقه من أباطيل الروافض وخرافاتهم التي لا وجود لها.

یہ بهى من گھڑت ہے

■ مہمان کے اکرام کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں:
 ● قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه”. (متفق عليه(

جو شخص اللہ پر اور آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے.

 ● وقال صلى الله عليه وسلم: “ما في الناس مثل رجل آخذ برأس فرسه يجاهد في سبيل الله عز وجل، ويجتنب شرور الناس، ومثل آخر باد في نعمة يقري ضيفه ويعطي حقه”.(صحيح، رواه أحمد(

حضورﷺ نے فرمایا کہ ان دو آدمیوں جیسا اجر والا کوئی نہیں:

ایک وہ جو اللہ کے راستے میں جہاد کر رہا ہو اور دوسرا وہ جو مہمان نوازی کر رہا ہو.

 ● وقال صلى الله عليه وسلم: “لا خير فيمن لا يضيف”. (حسن، رواه أحمد(

 حضور ﷺنے فرمایا:

اس گھر میں خیر نہیں جس میں مہمان نہ آئے.

 ● (وقال صلى الله عليه وسلم: “إن لزورك عليك حقا”. (متفق عليه

حضورﷺ نے فرمایا ک: تیرے مہمان کا تجھ پر حق ہے.

 

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں