تاریخ کے عظیم زلزلے
سوال
مندرجہ ذیل تحریر کی تحقیق مطلوب ہے:
دنیا میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا زلزلہ کب آیا؟ کیا حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں زلزلہ آیا؟
کتاب “تحریك السلسلة فیما یتعلق بالزلزلة” میں امام عجلونی نے فرمایا:
دنیا میں سب سے پہلے زلزلہ سیدنا آدم علیہ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں آیا تھا، جب قابیل نے ہابیل کو شہید کیا تب پہلا زلزلہ آیا، اور یہ زلزلہ دنیا کا سب سے بڑا زلزلہ تھا، زمین سات دن تک ہلتی رہی تھی!
پھر سیدنا ابراھیم علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام جب سیدنا اسماعیل علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کو ذبح کرنے لگے تب زلزلہ آیا.
جب ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے لخت جگر اسماعیل علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کو چٹان پر لٹایا تو زمین ہل گئی، آسمان کا رنگ سرخ ہوگیا، سورج اپنی جگہ سے ہٹ گیا، عرش ہل گیا، اور کرسی ہل گئی، فرشتوں نے کہا: اگر اللہ رب العزت کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ان کو بناتا، تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا!
پھر سیدنا صالح علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی قوم پر بڑا زلزلہ آیا، پھر سیدنا شعیب علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی قوم پر زلزلہ آیا، پھر سیدنا موسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کے دور میں جب ستر آدمیوں کو چنا تب زلزلہ آیا، اور تب بھی آیا جب انہوں نے کہا کہ آپ نے اپنے بھائی ہارون کو شہید کیا ہے.
پھر سیدنا عیسی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کے بعد اَسّی(٨٠) جھٹکے زلزلے کے آئے.
پھر اصحابِ فیل پر زلزلہ آیا، پھر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی صبح زلزلہ آیا حتی کہ بت اوندھے منہ گر گئے، اور یہ زلزلہ تین دن تک جاری رہا، اور پھر کسری کے محل میں زلزلہ آیا جس سے چودہ کنگرے گر گئے.
پھر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں مدینہ منورہ میں زلزلہ آیا تو آپ نے فرمایا: تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اسکی طرف رجوع کرو، یعنی استغفار کرو تو تم توبہ کرو، پھر تب زلزلہ آیا جب حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم خلفاء راشدین کے ساتھ احد پہاڑ پر تھے!
پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں زلزلہ آیا، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے دور میں زلزلہ آیا تو آپ نے ہاتھ زمین پر مار کر فرمایا: ٹھہر جا!
زلزلہ لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے بھی آتا ہے اور زنا کی کثرت کی وجہ سے بھی آتا ہے اور اللہ رب العزت اپنی قدرت دکھاتا ہے تب بھی آتا ہے، جیسا کہ اوپر گذرا کہ مدینہ پاک میں زلزلہ آیا حالانکہ وہ زمانہ پاک، لوگ پاک، ان میں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے!
بہرحال زلزلہ آنے کی صورت میں گناہوں سے توبہ کی جائے اور زیادہ نیکیاں کی جائیں.
کیا یہ تمام باتیں درست ہیں؟
الجواب باسمه تعالی
واضح رہے کہ تاریخ کی بہت ساری کتابوں میں علماء کرام اور مؤرخین نے دنیا کی تاریخ میں آنے والے زلزلوں کے متعلق بتایا ہے، بلکہ خاص زلزلے سے متعلق تقریبا درجن بھر کتابیں لکھی گئی ہیں.
– بعض کتابوں کے نام:
١. “علم حدوث الرياح في باطن الأرض، المحدثة كثير الزلازل”، ونسبها ابن النديم إلى الكندي المتوفى 204هـ.
٢. “الإنذار بحدوث الزلازل” لابن عساكر 571هـ.
٣. كتاب “الزلازل والأشراط” لأبي الحسن علي بن أبي بكر العوشاني 557هـ.
٤. “قلائد العقائل، في ذكر ما ورد في الزلازل” لشهاب الدين إسماعيل بن حامد بن عبدالرحمن القوصي 574 – 653هـ.
٥. “جمل الإيجاز، بنار الحجاز” وقد سماه حاحي خليفة: “عروة التوثيق، في النار والحريق”، والكتاب لكاتبه قطب محمد بن علي القسطلانی.
٦. “رسالة في الزلزال الذي ضرب حلب ومنبج في ذلك العام” لابن الوردي، وابن الوردي شاعر ومؤرخ وأديب ولد في معرة النعمان سنة 744هـ.
٧. “تحصين المنازل، من هول الزلازل” لأبي الحسن بن الجزار.
٨. “الحوقلة في الزلزلة” لمؤلفه حامد بن علي العمادي، 1103 – 1171هـ، والمؤلف عاصر الشيخ عبدالغني النابلسي.
٩. “تحريك السلسلة، فيما يتعلق بالزلزلة” لمؤلفه إسماعيل بن محمد بن عبدالهادي العجلوني 1087 – 1162هـ.
١٠- “هداية الطريق، لإزالة الزلزلة والحريق” لشبيب زاده محمد أمين.
١١. “كشف الصلصلة في وصف الزلزلة” لجلال الدين السيوطي المتوفي 911هـ.
کتب تاریخ میں ذکر شدہ واقعات کی حیثیت:
ان کتب میں موجود روایات کی تین حیثیتیں ہیں:
١. اسرائیلیات:
وہ واقعات جو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے سے پہلے کے ہیں، ان واقعات کے متعلق صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ لا نصدق ولا نکذب، نہ ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں نہ اس کو جھٹلاتے ہیں، کیونکہ تصدیق کا ذریعہ قرآن وحدیث ہے، اور وہ دونوں ان واقعات کی طرف سے خاموش ہیں، لہذا اگر کوئی واقعہ تاریخ کی کتب میں مذکور ہے تو بطورِ تاریخ اس کو ذکر کیا جا سکتا ہے.
٢. احادیث:
ایسے تاریخی واقعات جن کا تعلق زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو، یا زمانہ صحابہ کرام سے ہو، تو ان واقعات کی اسنادی حیثیت دیکھی جائیگی، اگر وہ درست ہے تو قبول کئے جائیں گے اور اگر درست نہ ہوئے تو رد کیا جائےگا.
٣. تاریخ اسلام:
وہ واقعات جو بعد کے زمانے میں پیش آئے، ان واقعات کو اگر معتبر مؤرخین نے ذکر کیا ہو، یا کثرت سے مذکور ہوں اور ان پر کسی نے رد بھی نہ کیا ہو، تو ان واقعات کو بھی تسلیم کیا جائےگا.
سوال میں مذکور واقعات کی تحقیق:
امام سیوطی نے اپنی کتاب “کشف الصلصلة عن وصف الزلزلة” میں ان واقعات کو نقل کیا ہے.
ذكر السيوطي في مقدمة كتابه (كشف الصَّلْصَلة، عن وصف الزلزلة)
١. أول زلزلة وقعت في الدنيا، كانت يوم قتل قابيل هابيل، فقد رجفت الأرض سبعة أيام.
٢. وتزلزلت الأرض يوم أراد إبراهيم أن يذبح ابنه إسماعيل عليهما السلام.
٣. وأن قوم شعيب عليه السلام قد هلكوا بالزلزلة {فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ} [الأعراف:91]
٤. وأن الأرض رجفت بالسبعين الذين اختارهم موسى عليه السلام، لأسباب أوردها السيوطي وجمع كبير من المفسرين.
٥. وأورد خبرًا مفادُه أن الشام قد رجفت بعد سيدنا عيسى عليه السلام واحدًا وثمانين مرة.
٦. وأن الأرض زلزلت لما قَدِمَ أصحاب الفيل إلى مكة، وزلزلت مكة يوم ولد النبي صلى الله عليه وسلم ثلاثة أيام بلياليها، وهي الزلزلة التي هزت إيوان كسرى وسقطت منه أربع عشرة شرفة. (السيوطي: كشف الصلصلة، ص:7/21).
ان واقعات کا تعلق اسرائیلیات اور تاریخ سے ہے، ان کو جھٹلایا نہیں جاسکتا، اور ان واقعات کی تصدیق کا بس یہی ذریعہ ہے کہ مختلف کتب تاریخ وتفسیر میں منقول ہے،
آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں زلزلے:
روایت میں ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے زمانے میں زلزلہ آیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہارا رب چاہتا ہے کہ تم اس کو راضی کرلو، پس اپنے رب کو راضی کرلو،
(لیکن یہ روایت سند کے لحاظ سے کمزور ہے)
السنة الخامسة للهجرة النبوية الشريفة، أصاب المدينة المنورة زلزال شهده رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال فيه: “يستعتبُكم ربُّكم، فأعتبوه”.
حضرت ابن مسعود کا قول:
اس قول کی نسبت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف کی جاتی ہے کہ ان کے زمانے میں کوفہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارا رب تمھیں عتاب کررہا ہے پس اس کو راضی کرلو،
وقد روي هذا القول من كلام ابن مسعود رضي الله عنه، كما جاء في تفسير الطبري (17/478): حدثنا بشر، قال: ثنا يزيد قال: ثنا سعيد، عن قتادة، قوله: {وَمَا نُرْسِلُ بِالآيَاتِ إِلا تَخْوِيفًا}، وإن الله يخوّف الناس بما شاء من آية لعلهم يعتبرون، أو يذَّكَّرون، أو يرجعون، ذُكر لنا أن الكوفة رجفت على عهد ابن مسعود، فقال: يا أيها الناس! إن ربكم يستعتبكم فأعتبوه.
حضرت عمر کے زمانے میں زلزلہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں زلزلہ آیا، یہانتک کہ چارپائیاں آپس میں ٹکرا گئیں، حضرت ابن عمر نماز پڑھ رہے تھے ان کو اپنی نماز کا بھی پتہ نہ چل سکا،…..
حضرت عمر نے بیان فرمایا اور فرمانے لگے کہ تم لوگوں نے نئی چیزیں پیدا کرنے میں جلدی کردی، اگر یہ زلزلہ دوبارہ آیا تو میں یہاں سے نکل جاؤنگا.
عن صفيةَ بنت أبي عبيد قالت: زلزلت الأرض على عهد عمر، حتى اصطفقت السُّرر، وابن عمر يُصلِّي فلم يَدرِ بها، ولم يوافق أحدًا يُصلِّي، فدرى بها، فخطب عمرُ الناسَ، فقال: “أحدثتم، لقد عجلتم”، قالت: ولا أعلمه إلاَّ قال: “لئن عادتْ لأخرجنَّ من بين ظهرانيكم”. [رواه ابن أبي شيبة (8335)، والبيهقي (3/343)، ورواته ثقات]
خلاصہ کلام
زلزلوں کی تاریخ بہت قدیم ہے، جب سے زمین بنی ہے زلزلے آتے رہتے ہیں، اور قیامت تک آتے رہینگے، اس کے اسباب بھی مختلف ہوتے ہیں، کہیں رب العالمین اپنی قدرت دکھاتے ہیں اور کبھی انسانوں کو غفلت سے بیدار کرنا مقصود ہوتا ہے، لہذا زلزلوں کے آنے کے بعد اپنے اعمال کو سدھارنے کی کوشش کرنی چاہیئے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٢٦ فرورى ٢٠٢٣ کراچی