قبرستان میں سورہ اخلاص پڑھنے کی فضیلت
سوال
محترم مفتی عبدالباقی اخونزادہ صاحب!
آپ کی تحریریں پڑھتا رہتا ہوں، اور کافی استفادہ بھی کرتا ہوں، آج آپ کی ایک تحقیق نظر سے گذری، جس میں آپ نے ایک روایت کی تحقیق کر کے لکھا ہے کہ یہ روایت من گھڑت ہے، جبکہ یہی روایت بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء سے جاری شدہ فتوے میں موجود ہے، آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنی تحقیق پر نظر ثانی فرمائیں.
جامعہ بنوری ٹاؤن کے فتوے کا
نمبر: 144212200289
(دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ، علامہ محمد یوسف، بنوری ٹاؤن)
(سائل: آپ کا خیر اندیش، کوہاٹ)
الجواب باسمه تعالی
سب سے پہلے آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہماری تحقیق پڑھی، اور پھر ہمیں ہماری اصلاح کی طرف متوجہ کیا.
آپ نے جس فتوی کا ذکر کیا ہے، اس فتوے میں فوت شدگان کیلئے ایصال ثواب سے متعلق چار روایات کو نقل کیا گیا ہے.
جامعہ بنوری ٹاؤن کے فتوے میں روایات:
١. وروى الدارقطني «أن رجلا سأله عليه الصلاة والسلام فقال: كان لي أبوان أبرهما حال حياتهما فكيف لي ببرهما بعد موتهما؟ فقال صلى الله عليه وسلم: إن من البر بعد الموت أن تصلي لهما مع صلاتك وأن تصوم لهما مع صومك»
٢. وروي أيضا عن علي عنه صلى الله عليه وسلم قال: «من مر على المقابر وقرأ {قل هو الله أحد} [الإخلاص:1] إحدى عشرة مرة ثم وهب أجرها للأموات أعطي من الأجر بعدد الأموات»
٣. وعن «أنس قال: يا رسول الله! إنا نتصدق عن موتانا ونحج عنهم وندعو لهم، فهل يصل ذلك لهم؟ قال نعم، إنه ليصل إليهم، وإنهم ليفرحون به كما يفرح أحدكم بالطبق إذا أهدي إليه» رواه أبو حفص العكبري.
٤. وعنه أنه صلى الله عليه وسلم قال: «اقرءوا على موتاكم يس» (رواه أبوداود)
ان چار روایات میں سے دو روایات من گھڑت ہیں، دوسری اور تیسری روایت.
(تیسری روایت کی تحقیق تنبیہات سلسلہ نمبر 380 میں موجود ہے)
جامعة الرشید کا فتوی:
اور تیسری روایت جس کی تحقیق تنبیہ نمبر 380 میں موجود ہے، وہ روایت جامعہ الرشید کے فتوے میں بھی موجود ہے. (فتوی نمبر 68970)
(نماز کا بیان، قضاء نمازوں کا بیان، جامعة الرشید)
دوسری روایت کی تحقیق:
قبرستان میں سورہ اخلاص پڑھنے کی فضیلت:
جو شخص قبرستان سے گذرے اور گیارہ بار سورہ اخلاص پڑھے اور اس کا اجر مردوں کو بخشے تو اس کو تمام مردوں کے بقدر اجر ملےگا.
روى أبو محمد الخلال في “فضائل الإخلاص” (54)، وغيره؛ عن عَبْدِاللهِ بْنِ عَامِرٍ الطَّائِيِّ، حَدَّثَنِي أَبِي، حدثنا عَلِيُّ بْنُ مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ مَرَّ عَلَى الْمَقَابِرِ وَقَرَأَ {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} إِحْدَى عَشْرَةَ مَرَّةً، ثُمَّ وَهَبَ أَجْرَهُ لِلْأَمْوَاتِ، أُعْطِيَ مِنَ الْأَجْرِ بِعَدَدِ الْأَمْوَاتِ.
اس روایت کی اسنادی حیثیت:
اس روایت کی سند میں تمام لوگ حضرت علی کی اولاد میں سے ہیں، لیکن عبداللہ بن عامر الطائی اور اس کے والد پر محدثین کا کلام کافی سخت ہے.
امام ذہبی کہتے ہیں کہ اس عبداللہ کے پاس اپنے آباء و اجداد کے نام پر ایک من گھڑت نسخہ تھا جس میں اس کی یا اس کے باپ کی من گھڑت چیزیں تھیں.
عبدالله بن أحمد بن عامر، عن أبيه، عن علي الرضا، عن آبائه بتلك النسخة الموضوعة الباطلة، ما تنفك عن وضعه أو وضع أبيه. (ميزان الاعتدال: 2/390).
امام سخاوی کہتے ہیں کہ عبداللہ اور اس کا باپ عامر دونوں جھوٹے تھے.
وقال السخاوي رحمه الله تعالى: لكن عبدالله وأبوه كذابان، ولو أن لهذا الحديث أصلا، لكان حجة في موضع النزاع، ولارتفع الخلاف. (الأجوبة المرضية:1/170).
اسی مضمون کی ایک اور من گھڑت روایت:
جو شخص قبرستان میں داخل ہوا، اور اس نے سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص اور الهاکم التکاثر پڑھی، اور پھر کہا کہ اے اللہ میں اس کا ثواب اس قبرستان کے مسلمان مَردوں اور عورتوں کو بخشتا ہوں، تو یہ تمام اموات قیامت کے دن اس کے سفارشی ہونگے.
رواه أبو القاسم الزنجاني “المنتقى من فوائد الزنجاني” (58)، عن أحمد بن سعيد الإخميمي، حدثنا أبو الطيب عمران بن موسى العسقلاني من حفظه، أخبرنا المؤمل بن إهاب، أخبرنا عبدالرزاق، أخبرني معمر، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هُرَيْرَة قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: من دخل الْمَقَابِر ثمَّ قَرَأَ فَاتِحَة الْكتاب، و {قل هُوَ الله أحد}، و {أَلْهَاكُم التكاثر} ثمَّ: اللَّهُمَّ إِنِّي جعلت ثَوَاب مَا قَرَأت من كلامك لأهل الْمَقَابِر من الْمُؤمنِينَ وَالْمُؤْمِنَات؛ كَانُوا شُفَعَاء لَهُ إِلَى الله تَعَالَى.
اس روایت میں أحمد بن سعيد الإخميمي پر جھوٹ کا الزام ہے.
ابن حجر رحمه اللہ لکھتے ہیں کہ اس شخص نے ایک سند بنا کر مجاہدین، مرابطین اور شہداء کے فضائل میں روایات نقل کی ہیں، جو سب کی سب من گھڑت روایات ہیں.
قال الحافظ ابن حجر رحمه الله تعالى: أحمد بن سعيد بن فرضخ الإخميمي المصري.
قال الدارقطني: روى عن القاسم بن عبدالله بن مهدي، عَن عَلِيّ بن أحمد بن سهل الأنصاري، عن عيسى بن يونس، عن مالك، عَن الزُّهْرِيّ، عن سعيد بن المُسَيَّب، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، عن النبي صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أحاديث في ثواب المجاهدين والمرابطين والشهداء، موضوعة كلها، وكذب لا تحل روايتها، والحمل فيها على ابن فرضخ فهو المتهم بها، فإنه كان يركب الأسانيد ويضع عليها أحاديث. (لسان الميزان:1/472).
خلاصہ کلام
ہمارے ہاں بہت سارے دارالافتاء کے حضرات اس بات کا احساس بلکل نہیں کرتے کہ ان کے فتوے میں نقل کی جانے والی روایت کس درجے کی ہے، فقہ کے حوالوں کے اعتبار سے بہت زیادہ اہتمام دیکھنے کو ملتا ہے، لیکن حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بہت تساہل سے کام لیا جارہا ہے، بار بار اس بات کی طرف متوجہ کیا گیا کہ خدارا ہر دارالافتاء میں ایسے مفتیانِ کرام کی موجودگی کو یقینی بنایا جائے جو متخصص فی الحدیث ہوں، یا پھر احادیث سے متعلق امور کی تخریج اس شعبے کے ماہر لوگوں سے کروائی جائے، لیکن افسوس ہوتا ہے جب بڑے بڑے اداروں کے فتاوی میں من گھڑت روایات کو نقل کیا جاتا ہے، اور عوام الناس ان پر اعتماد کی وجہ سے پھر ان روایات کو آگے نقل کرتے ہیں، اس بارے میں اربابِ مدارس کو خصوصی غور کرنے کی ضرورت ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
١٨ مارچ ٢٠٢٣ کراچی