مختصر صلاۃ التسبيح کا طریقہ
سوال
شیخ مولانا شمس الرحمن عباسی صاحب کا ایک کلپ وائرل ہو رہا ہے جس میں انہوں نے مختصر صلاۃ التسبيح کا طریقہ بتایا ہے، اور وہ تمام فضائل جو صلاۃ التسبيح کے ہیں وہ اس کیلئے ذکر کئے ہیں، کہ اس کے پڑھنے سے اگلے پچھلے صغیرہ کبیرہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں…
آپ سے اسکی تحقیق مطلوب ہے…
(سائل: عبدالملک، کرغزستان)
الجواب باسمه تعالی
یہاں دو باتیں الگ الگ ہیں:
پہلی بات: صلاۃ التسبيح صغری، یعنی چھوٹی صلاۃ التسبيح کا ثبوت.
دوسری بات: بیان میں ذکر کردہ عمل کا ثبوت.
١. پہلی بات:
صلاۃ التسبيح الصغری، چھوٹی صلاۃ التسبيح.
اس نام کی کسی نماز کا ذکر کسی بھی مستند حدیث کی کتاب میں نہیں ملتا، البتہ بعض اردو کی کتب میں اس کا تذکرہ ملتا ہے، لہذا یہی کہا جائےگا کہ یہ نماز اس نام کے ساتھ ان فضائل کے ساتھ ثابت نہیں.
٢. دوسری بات:
دس مرتبہ سبحان اللہ، دس مرتبہ الحمدلله اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھنے کا ثبوت اور فضائل باقاعدہ مستند روایات سے مستند کتب میں موجود ہیں.
امام ترمذی نے حضرت انس سے نقل کیا ہے کہ ان کی والدہ ام سُلَيم آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہ مجھے کچھ کلمات سکھائیں جن کو میں اپنی نماز میں پڑھوں، تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ دس مرتبہ سبحان اللہ پڑھ لو، دس مرتبہ الحمد للہ پڑھ لو، دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لو، پھر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت مانگ لو تو اللہ تعالیٰ جواب میں فرماتے ہیں کہ ہاں میں نے کر لیا، ہاں میں نے قبول کر لیا.
عن أنس بن مالك، أن أم سليم، غدت على النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: علمني كلمات أقولهن في صلاتي، فقال: «كبري الله عشرا، وسبحي الله عشرا، واحمديه عشرا، ثم سلي ما شئت»، يقول: نعم نعم. (سنن الترمذي، أبواب الوتر باب ما جاء في صلاة التسبيح، حديث رقم:481)
وفي الباب عن ابن عباس، وعبدالله بن عمرو، والفضل بن عباس، وأبي رافع: «حديث أنس حديث حسن غريب»، وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم غير حديث في صلاة التسبيح، ولا يصح منه كبير شيء، وقد رأى ابن المبارك، وغير واحد من أهل العلم: صلاة التسبيح وذكروا الفضل فيه.
حدثنا أحمد بن عبدة قال: حدثنا أبو وهب، قال: سألت عبدالله بن المبارك عن الصلاة التي يسبح فيها؟ فقال: يكبر، ثم يقول: سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا إله غيرك، ثم يقول خمس عشرة مرة: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ثم يتعوذ، ويقرأ: {بسم الله الرحمن الرحيم} [الفاتحة: ١]، وفاتحة الكتاب، وسورة، ثم يقول عشر مرات: سبحان الله، والحمدلله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ثم يركع، فيقولها عشرا، ثم يرفع رأسه، فيقولها عشرا، ثم يسجد، فيقولها عشرا، ثم يرفع رأسه، فيقولها عشرا، ثم يسجد الثانية، فيقولها عشرا، يصلي أربع ركعات على هذا، فذلك خمس وسبعون تسبيحة في كل ركعة، يبدأ في كل ركعة بخمس عشرة تسبيحة، ثم يقرأ، ثم يسبح عشرا، فإن صلى ليلا فأحب إلي أن يسلم في كل ركعتين، وإن صلى نهارا فإن شاء سلم وإن شاء لم يسلم”. قال أبو وهب: وأخبرني عبدالعزيز بن أبي رزمة، عن عبدالله أنه قال: «يبدأ في الركوع بسبحان ربي العظيم، وفي السجود بسبحان ربي الأعلى ثلاثا، ثم يسبح التسبيحات» قال أحمد بن عبدة: وحدثنا وهب بن زمعة قال: أخبرني عبدالعزيز (وهو ابن أبي رزمة) قال: قلت لعبدالله بن المبارك: إن سها فيها يسبح في سجدتي السهو عشرا عشرا؟ قال: لا، إنما هي ثلاث مائة تسبيحة.
اس ذکر کو کس وقت کیا جائے؟
امام نسائی نے جب اس روایت کو نقل کیا تو باب کا نام رکھا “تشہد کے بعد ذکر”.
ورواه النسائي (1299) ولفظه: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَارَسُولَ الله! عَلِّمْنِي كَلِمَاتٍ أَدْعُو بِهِنَّ فِي صَلَاتِي قَالَ: “سَبِّحِي الله عَشْرًا وَاحْمَدِيهِ عَشْرًا وَكَبِّرِيهِ عَشْرًا ثُمَّ سَلِيهِ حَاجَتَكِ يَقُلْ: نَعَمْ نَعَمْ”.
وبوّب له النسائي: “الذِّكْرُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ”.
علامہ سندھی نے سنن نسائی کے حاشیہ میں جب اس روایت کو ذکر کیا تو فرمایا کہ اس روایت میں اس ذکر کا تشہد کے بعد کرنے کی کوئی صراحت نہیں ہے.
حاشية السندي على سنن النسائي: أبو الحسن، محمد بن عبدالهادي نور الدين السندي (المتوفى: 1138هـ)
قَوْله: “ثُمَّ سَلِيهِ حَاجَتك”: كَأَنَّهُ أَخَذَ مِنْهُ كَوْن هَذَا الذِّكْر بَعْد التَّشَهُّد، إِذْ الْمَعْهُود سُؤَال الْحَاجَات هُنَاكَ، وَإِلَّا فَلَا دَلَالَة فِي لَفْظ الْحَدِيث عَلَى ذَلِكَ، وَقَدْ جَاءَ الدُّعَاء فِي السُّجُود وَغَيْره.
ابن رجب کہتے ہیں کہ یہی روایت جب امام احمد نے نقل کی ہے تو وہاں نماز کے اندر کی صراحت نہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کے بعد پڑھنے کا بھی احتمال ہے، جبکہ ایک روایت میں تو باقاعدہ فرض پڑھنے کے بعد کی صراحت ہے، تو گویا نماز کے بعد ذکر کی فضیلت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں گے.
روى الإمام أحمد (11797) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه قَالَ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَارَسُولَ الله! عَلِّمْنِي كَلِمَاتٍ أَدْعُو بِهِنَّ. قَالَ: تُسَبِّحِينَ الله عَزَّوَجَلَّ عَشْرًا وَتَحْمَدِينَهُ عَشْرًا وَتُكَبِّرِينَهُ عَشْرًا ثُمَّ سَلِي حَاجَتَكِ فَإِنَّهُ يَقُولُ: قَدْ فَعَلْتُ قَدْ فَعَلْتُ”.
وقال ابن رجب: وخَرّجه الإمام أحمد، ولم يذكر فيه: “في صلاتي”.
وقد رُوي الحديث بلفظ آخر بإسناد آخر، وهو: “إذا صَلّيتِ الصلاة المكتوبة فسبّحِي”.
وهذا اللفظ يُحمَل على أنها تقول ذلك إذا فَرغت مِن صلاتها، فيُستدلّ به حينئذ على فضل الذِّكر والدعاء عَقب الصلاة المكتوبة، وعلى ذلك حَمَلَه ابن حبان وغيره.
اس ذکر کو بلکل نماز کی ابتداء میں بھی کر سکتے ہیں.
مختلف کتب میں اسی طرح کا ذکر آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے بلکل ابتداء نماز میں بھی ثابت ہے.
أبي داود (766) والنسائي (1617) وأحمد (24578) عن عائشة رضي الله عنها أنها سئلت: بِمَ كَانَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِحُ قِيَامَ اللَّيْلِ؟ فقالت: “كَانَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُ عَشْرًا، وَيَحْمَدُ عَشْرًا، وَيُسَبِّحُ عَشْرًا، وَيُهَلِّلُ عَشْرًا، وَيَسْتَغْفِرُ عَشْرًا، وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاهْدِنِي وَارْزُقْنِي وَعَافِنِي، أَعُوذُ بِالله مِنْ ضِيقِ الْمَقَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَشْرًا”.
آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ابتداء نماز میں اس عمل کی تلقین بھی فرمائی ہے.
ويغني عنه ما رواه ابن السني في “عمل اليوم والليلة” (107) عن أم رافع رضي الله عنها أنها قالت: يا رسول الله! دلني على عمل يأجرني الله عزوجل عليه. قال: “يا أم رافع! إذا قمت إلى الصلاة فسبحي الله عشرا، وهلليه عشرا، واحمديه عشرا، وكبريه عشرا، واستغفريه عشرا، فإنك إذا سبحت عشرا قال: هذا لي، وإذا هللت قال: هذا لي، وإذا حمدت قال: هذا لي، وإذا كبرت قال: هذا لي، وإذا استغفرت قال: قد غفرت لك”.
کیا چھوٹی صلاۃ التسبيح، صلاۃ التسبيح کی قسم ہے، یا اس کو صلاۃ التسبيح کہا گیا ہے؟
امام ترمذی نے ام سلیم رضی اللہ عنہا والی روایت صلاۃ التسبيح کے باب میں ذکر کی ہے، یہیں سے بعض اردو کتب لکھنے والوں کو شبہ ہوا، اور انہوں نے اس کو مختصر صلاۃ التسبيح کا نام دیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امام ترمذی نے جب اس کو صلاۃ التسبيح کے باب میں ذکر کیا تو اس پر محدثین کو حیرت بھی ہوئی کہ اس ذکر والی نماز کا صلاۃ التسبيح سے کوئی تعلق نہیں تو پھر امام ترمذی نے اس کو کیوں اس باب میں ذکر کیا.
تحفۃ الاحوذی میں منقول ہے کہ علامہ عراقی فرماتے ہیں:
کہ ام سلیم کی روایت کا صلاۃ التسبيح کے باب میں نقل کرنا محل نظر ہے، کیونکہ متعدد روایات میں یہی ذکر نماز کے بعد کرنے کو کہا گیا ہے.
جبکہ بعض علماء کی رائے ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ام سلیم رضی اللہ عنہا کو یہ ذکر نماز کے اندر اور نماز کے بعد دونوں اوقات میں کرنے کا فرمایا ہو.
آگے لکھتے ہیں: لیکن اس طریقے کو کسی نے بھی صلاۃ التسبيح کا طریقہ قرار نہیں دیا.
قَوْلُهُ: (كَبِرِّي الله عَشْرًا وَسَبِّحِي الله عَشْرًا وَاحْمَدِيهِ عَشْرًا)
قَالَ الْعِرَاقِيُّ: إِيرَادُ هَذَا الْحَدِيثِ فِي بَابِ صَلَاةِ التَّسْبِيحِ فِيهِ نَظَرٌ، فَإِنَّ الْمَعْرُوفَ أَنَّهُ وَرَدَ فِي التَّسْبِيحِ عَقِبَ الصَّلَوَاتِ لَا فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ، وَذَلِكَ مُبَيَّنٌ فِي عِدَّةِ طُرُقٍ مِنْهَا فِي مُسْنَدِ أَبِي يَعْلَى وَالدُّعَاءِ لِلطَّبَرَانِيِّ فَقَالَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ! إِذَا صَلَّيْت الْمَكْتُوبَةَ فَقُولِي: سُبْحَانَ اللهِ عَشْرًا…..الخ (كَذَا فِي قُوتِ الْمُغْتَذِي).
وَقَالَ أَبُو الطَّيِّبِ الْمَدَنِيُّ: أَجَابَ عَنْهُ بَعْضُ الْفُضَلَاءِ بِأَنَّهُ يُمْكِنُ أَنْ يُقَالَ: عَلَّمَهَا النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَقُولَ فِي الصَّلَاةِ وَأَنْ تَقُولَ بَعْدَهَا، وَهُوَ الَّذِي فَهِمَهُ الْمُصَنِّفُ وَبِهِ يَحْصُلُ التَّوْفِيقُ مَعَ بَقَاءُ كُلِّ رِوَايَةٍ عَلَى ظَاهِرِهَا، قَالَ: وَيُؤَيِّدُ أَنَّهُ عَلَّمَهَا صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَقُولَهَا فِي الصَّلَوَاتِ قَوْلُهَا أَقُولُهُنَّ فِي صَلَاتِي.
لَكِنْ لَمْ يَذْهَبْ أَحَدٌ مِنْ الْعُلَمَاءِ إِلَى هَذِهِ الطَّرِيقَةِ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ، فَالظَّاهِرُ أَنَّهُ بِحَذْفِ الْمُضَافِ أَيْ أَقُولُهُنَّ فِي دُبُرِ صَلَاتِي، وَإِيرَادُ الْمُصَنِّفِ هَاهُنَا بِاعْتِبَارِ مُنَاسَبَةِ مَا انتھی. (تحفۃ الأحوذي بشرح جامع الترمذي: أبو العلا محمد عبدالرحمن المباركفورى المتوفى: 1353هـ)
خلاصہ کلام
مختصر صلاۃ التسبيح کے نام سے کوئی نماز اور اس کے فضائل سابقین کی کسی مستند کتاب میں موجود نہیں، لہذا اس نماز کو صلاۃ التسبيح کہنا یا اس کے لئے صلاۃ التسبيح کے فضائل ذکر کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں، البتہ حاجت کیلئے اس عمل کو نماز کے اندر اور نماز کے بعد دونوں طرح کیا جا سکتا ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ
٥ اپریل ٢٠٢٣ کراچی