تنبیہ نمبر39

مولود کعبہ کی تحقیق

سوال :بعض حضرات نے خلیفہ رابع، امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ ان کی پیدائش بھی بیت اللہ کے اندر ہوئی  تھی.
 ملاحظہ ہو:
”امام حاکم رحمہ اللہ نے “المستدرک” میں ایک روایت ذکر کی ہے، جس میں حدیث کے راوی مصعب بن عبداللہ رحمہ اللہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنه کے بیت اللہ کے اندر پیدا ہونے کا ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”ولم یولد قبله ولا بعدہ في الکعبة أحد“․

کہ نہ ان سے پہلے اور نہ ہی انکے بعد کوئی بهى کعبہ میں پیدا ہوا۔ لیکن اس پر امام حاکم رحمه اللہ فرماتے ہیں:

”وَھِمَ مصعبٌ في الحرف الأخیر، فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمیر المؤمنین علي بن أبي طالب کرم اللہ وجهه في جوف الکعبة“․

کہ اس آخری بات میں ”مصعب“ کو وہم ہو گیا ہے، اس لیے کہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے حضرت علی کرم اللہ وجهه کو بیت اللہ کے اندر جنم دیا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین، ذکر مناقب حکیم بن حزام القرشی رضی اللہ عنه، رقم الحدیث: ۶۰۴۴، ۳/۵۵۰، دار الکتب العلمیة)

حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

 ”واز مناقب علی رضی اللہ عنہ کہ در حین ولادت او ظاہر شد یکی آن است کہ در جوف کعبہ معظمہ تولد یافت․

قال الحاکم في ترجمة حکیم بن حزام قول مصعب؛ فیه: ”ولم یولد قبله ولا بعدہ في الکعبة أحد“ ما نصه: ”وھم مصعب في الحرف الأخیر، فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمیر المؤمنین علي بن أبي طالب کرم اللہ وجهه في جوف الکعبة“․ (ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء: ۶/۳۵۹)
اس کے بارے میں آپ کی تحقیق کیا ہے؟
الجواب باسمه تعالی

واضح رہے کہ خانہ کعبہ ہر زمانے میں ایک محترم اور عزت والا مقام رہا ہے. مشرکین عرب باوجود اپنی جہالت اور سرکشی کے اس بیت اللہ کا اکرام کرتے تھے اور یہاں آنے والے حجاج کی خدمت کو سعادت سمجھتے تھے. لہذا ایسا ممکن نہیں کہ اتنے مقدس مقام کو ولادت جیسے آلودہ عمل کیلئے مختص کیا جائے.

تاریخ میں صرف اس ایک واقعہ کو ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت حکیم بن حزام کی والدہ کسی خاص مناسبت سے بیت اللہ میں داخل ہوئیں کہ اچانک انکو درد زہ شروع ہوا حتی کہ ان کو وہاں سے نکالنا ممکن نہ رہا تو وہیں ان کیلئے چمڑا بچھایا گیا اور بچے کی ولادت ہوئی.

ورواه الذهبي عن ابن منده وأتى برواية الزبير عن مصعب بن عثمان أن حكيم ولد في جوف الكعبة.
– سير أعلام النبلاء 3/46.
– والمناوي في “فيض القدير” 2/37.
– “الوفيات” للقسطني 1/67.
– وانظر مشاهير علماء الأمصار 1/12.
– ريح النسرين فيمن عاش من الصحابة 1/49.
– الوقوف على الموقوف 1/80.
بل هذا ما رواه في جمهرة نسب قريش (1/353)
وجاء في كتاب الثقات «حكيم بن حزام.. وكان مولده قبل الفيل بثلاث عشرة سنة، دخلت أمه الكعبة فمخضت فيه فولدت حكيم بن حزام في جوف الكعبة» (كتاب الثقات 3/71)

حکیم بن حزام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بھتیجے ہیں اور حضور ﷺ سے پانچ سال بڑے ہیں.یہ واحد شخص ہیں جو کعبہ میں پیدا ہوئے اور ان کی عمر ایک سو بیس سال رہی.

 • حكيم بن حزام بن خويلد بن أسد بن عبدالعزى بن قصي بن كلاب أبوخالد القرشي  الأسدي.
•  مولده: وُلِد حكيم في جوف الكعبة، وعاش مئة وعشرين سنة.
■  امام حاکم رحمہ اللہ کا موقف

امام حاکم رحمہ اللہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس بات کا دعوی کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنه کی پیدائش خانہ کعبہ میں ہوئی ہے

اور اس پر تواتر کا دعوی کیا لیکن اس تواتر پر ایک بھی روایت ثابت نہ کرسکے. پھر بعد کے جن حضرات نے بھی اس قول کو لیا انہوں نے امام حاکم کے قول کو بنیاد بنایا، لیکن جیسا کہ عرض کیا کہ امام حاکم کا اپنا قول ہی بلا دلیل تھا.

●  تمام اسماء الرجال کے ماہر محدثین نے امام حاکم رحمہ اللہ کے اس قول کو رد کیا.

علامہ سیوطی اور علامہ نووی رحمهما اللہ نے بالتصریح ان حضرات کی تردید فرمائی ہے.

علامہ سیوطی نے امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کو ضعیف قرار دیا ہے.

قال شیخ الإسلام: ولا یعرف ذٰلک لغیرہ، وما وقع في ”مستدرک الحاکم“ -من أن علیا وُلِدَ فیھا- ضعیفٌ․ (تدریب الراوي، النوع الستون: التواریخ والوفیات، فرع الثاني: صحابیان عاشا ستین سنة في الجاھلیة: ۲/۴۸۲، دار العاصمة(

اور علامہ نووی رحمہ اللہ نے بھی امام حاکم رحمہ اللہ کے قول کو ضعیف قرار دیا ہے.

“قالوا: ولد حکیم بن حزام في جوف الکعبة، ولا یعرف أحد ولد فیھا غیرہ، وأما ما روي أن علي ابن أبي طالب رضي اللہ عنه ولد فیھا؛ فضعیف عند العلماء”․ (تھذیب الأسماء واللغات للنووي، حرف الحاء، حکیم بن حزام: ۱/۱۶۶، دارالکتب العلمیة(
 ● اس کے علاوہ علامہ حسین بن محمد الدِّیار البَکْري (المتوفی: ٩٤٤ھ) نے تاریخ الخمیس میں ذکر کیا کہ کہا جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کعبہ میں پیدا ہوئے،لیکن یہ بات ثابت نہیں ہے.
”ویقال: ولادته في داخل الکعبة، ولم یثبت“․ (تاریخ الخمیس في أحوال أنفس النفیس، ذکر علي بن أبي طالب: ۲/۲۷۵، دار صادر(
اسی طرح شرح نهج البلاغه لابن عبدالحمید بن ھبة اللہ (المتوفی: ۶۵۶) میں مذکور ہے:
”واختلف في مولد علي رضي اللہ عنه أین کان؟ فکثیر من الشیعة یزعمون أنه ولد في الکعبة، والمحدثون لا یعترفون بذلك، ویزعمون أن المولود في الکعبة حکیم بن حزام بن خویلد بن أسد بن عبدالعزی بن قصي“․ (شرح نھج البلاغة، القول في نسب أمیر المؤمنین علي بن أبي طالب وذکر لمع بسیرة من فضائله: ۱/١٤، دار الجیل(
● اسی طرح  السیرة الحلبیة لعلي بن إبراہىم الحلبي (المتوفی ١٠٤٤ھ) میں مذکور ہے:
“وکون علي رضی اللہ عنه ولد في الکعبة؛ قیل: الذي ولد في الکعبة حکیم بن حزام، قال بعضھم: لا مانع من ولادة کلیھما في الکعبة، لکن في النور: حکیم بن حزام ولد في جوف الکعبة، ولا یعرف ذٰلک لغیرہ، وأما ما روي أن علیاً ولد فیھا، فضعیف عند العلماء”․ (السیرة الحلبیة، باب تزوجه ﷺخدیجة بنت خویلد: ۱/۲۰۲(
 ● مختصرا ان حضرات کی فہرست یہاں دی جارہی ہے جن حضرات نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خانہ کعبہ میں پیدائش کا انکار کیا ہے.
• واحتج الزيلعي في نصب الراية بما قاله مسلم (4/2)
• وحكاه الحافظ ابن حجر رواية عن الزبير بن بكار وهو ثقة (تهذيب التهذيب 2/384، الإصابة في معرفة الصحابة 2/112).
• وحكاه الحافظ المزي رواية عن العباس رضي الله عنه (تهذيب الكمال 21/63)
• وحكاه الحافظ ابن عبد البر في (الاستيعاب 1/142)
• وحكاه السيوطي في “تدريب الراوي” (2/358)
• وفي أخبار مكة «أول من ولد في الكعبة» (3/226 و 236)
خلاصہ کلام

مولود کعبہ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ہی ہیں اور جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ قرار دیا ہے ان کا قول بلا دلیل ہے.خود امام حاکم رحمه اللہ اپنے اس قول پر کوئی واضح دلیل پیش نہیں کرسکے ہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

اپنا تبصرہ بھیجیں