رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم کے روضے پر سلام بھیجنا
سوال: حج یا عمرہ کیلئے جانے والوں سے یہ کہنا کہ میری طرف سے حضور اکرم صلی اللہ علیه وسلم کے روضہ مبارک پر سلام عرض کردینا… کیا اس طرح کے عمل کا کوئی ثبوت صحابہ یا سلف میں کسی سے منقول ہے؟
الجواب باسمه تعالی
اصل تو اس باب میں یہی ہے کہ ہر انسان جہاں ہو وہیں سے درود اور سلام پڑھ کر اللہ کے حبیب کے حضور پیش کرے، اللہ تعالی کے مقرر کردہ فرشتے اس درود اور سلام کو اللہ کے نبی کی خدمت میں پیش کردیتے ہیں، جیسا کہ روایت میں ہے:
١. آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ زمین میں اللہ تعالی کے گھومنے والے فرشتے ہیں جو میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں.
وقال صلى الله عليه وسلم: “إن لله في الأرض ملائكة سياحين يبلغوني من أمتي السلام”. (رواه الإمام أحمد والنسائي وغيرهما)
٢. ایک دوسری روایت میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جمعہ بہترین دن ہے، پس اس دن مجھ پر کثرت سے سلام بھیجو کیونکہ تمہارا سلام مجھ تک پہنچایا جاتا ہے.
وقال صلى الله عليه وسلم: “خير أيامكم يوم الجمعة، فأكثروا عليَّ من الصلاة فيه، فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم”.
٣. اسی طرح ایک روایت میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میری قبر کو میلے کی جگہ نہ بناؤ، مجھ پر درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے چاہے تم کہیں بھی ہو۔
وقال عليه الصلاة والسلام: “لا تجعلوا قبري عيداً، ولا بيوتكم قبوراً، وصلُّوا عليَّ، فإن صلاتكم تبلغني أين كنتم”۔
سلام بھجوانے کے مانعین کی رائے:
مندرجہ بالا روایات کی وجہ سے علمائےکرام کا ایک طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ جب ہمارا سلام دنیا کے کسی بھی کونے سے آپ علیہ السلام تک فرشتوں کے ذریعے پہنچادیا جاتا ہے تو پھر کسی اور کے ذریعے سلام بھجوانے کا کوئی معنی اور مطلب نہیں بنتا جبکہ اس عمل کی ترغیب نہ اللہ کے نبی نے دی اور نہ اکابر صحابہ کرام میں سے کسی سے یہ بات ثابت ہے۔
سلام بھجوانے کے قائلین کی رائے:
یہ حضرات کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں (اور یہی جمہور امت کا عقیدہ ہے)، لہذا جیسا کہ آپ کی زندگی میں آپ کی طرف سلام کا بھیجنا ثابت اور باعث اجر تھا ویسے ہی آپ کے انتقال کے بعد بھی ایسا کرنا درست ہے۔
آپ علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں سلام بھیجنے کا ثبوت:
١. ابوعامر رضی اللہ عنہ کا سلام کہلوانا:
ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے کہا کہ اے بھتیجے! آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر میرا سلام پیش کردو.
ابْنَ أَخِي! انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: يَقُولُ لَكَ أَبُوعَامِرٍ: اسْتَغْفِرْ لِي. (صحیح مسلم: 2498، کتاب فضائل الصحابة)
٢. سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کا سلام کہلوانا:
فَقَالَ لَهُ سَعْدُ بْنُ الرَّبِيعِ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِآتِيَهُ بِخَبَرِكَ، قَالَ: فَاذْهَبْ إِلَيْهِ، فَاقْرَأْهُ مِنِّي السَّلَامَ. (موطا امام مالك: 1338، کتاب الجهاد)
٣. محمد بن المنکدر کا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ان کے انتقال کے وقت حضور علیہ السلام کو سلام پیش کرنے کی درخواست:
فَقَالَ لَهُ سَعْدُ بْنُ الرَّبِيعِ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِآتِيَهُ بِخَبَرِكَ، قَالَ: فَاذْهَبْ إِلَيْهِ، فَاقْرَأْهُ مِنِّي السَّلَامَ. (موطا امام مالك: 1338، کتاب الجهاد)أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ وَهُوَ يَمُوتُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَقْرِئْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي السَّلَامَ. (مسند احمد: 11660)
٤. ایک اور صحابی:
إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، فَقَالَ: “وَعَلَيْكَ وَعَلَى أَبِيكَ السَّلَامُ”. (ابوداود: 2934، کتاب الخراج، وکتاب الادب:5231)
آپ علیہ السلام کی قبر مبارک پر سلام بھجوانے کا سلف کا معمول:
١. حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے باقاعدہ سلام کا بھیجنا ثابت ہے.
◄ یزید المہدی کہتے ہیں کہ جب میں نے عمر بن عبدالعزیز سے اجازت چاہی تو انہوں نے فرمایا کہ میری ایک حاجت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تم آپ علیہ السلام کی قبر پر حاضر ہو تو میرا سلام عرض کردینا۔
عن يزيد المهدي قال: لما ودّعت عمر بن عبدالعزيز قال: إن لي إليك حاجة؛ قلت ياأمير المؤمنين كيف ترى حاجتك عندي؟ قال: أنى أراك إذا أتيت المدينة سترى قبر النبي فأقرئه منى السلام.
◄ حاتم بن وردان کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ باقاعدہ لوگوں کو سلام کیلئے شام سے مدینہ منورہ روانہ کرتے تھے.
وعن حاتم بن وردان قال: كان عمر بن عبدالعزيز يُوجّه البريد قاصدا من الشام إلى المدينة ليُقرئ عنه النبي السلام. [ذكره القاضي عياض في الشفاء في باب الزيارة (ج:2، ص:83)]
◄ ابوسعید کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا کہ تم مدینہ جاؤ گے اور اللہ کے نبی کی قبر دیکھو گے تو وہاں میرا سلام عرض کردینا.
وعن ابی سعید قال: قال لی عمر بن عبدالعزیز: إذا اتیت المدینة ستری قبر النبی فاقرئه منی السلام. (خلاصة الوفاء: 359)
٢. خفاجی کہتے ہیں کہ سلف کا طریقہ کار رہا ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کی خدمت میں سلام پیش کروایا کرتے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہی طریقہ کار رہا کہ وہ آپ علیہ السلام اور ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی خدمت میں سلام بھجوایا کرتے تھے.
وذكر الخفاجى: كان من دأب السلف أنهم يرسلون السلام إلى رسول الله وكان ابن عمر يفعله ويرسل له عليه الصلاة والسلام ولأبى بكر وعمر رضي الله عنهما
٣. خفاجی رحمه اللہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ آپ علیہ السلام کی خدمت میں فرشتوں کے ذریعے سلام پہنچادیا جاتا ہے لیکن اس صورت (یعنی سلام بھجوانے کی صورت) میں آپ علیہ السلام سے مخاطب ہونے کی اور آپ علیہ السلام کی طرف سے جواب کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔
ورسول الله صلى الله عليه وسلم وإن كان يبلغه سلام من سلم عليه وان كان بعيدا عنه لكن في هذا فضيلة خطابه عنده ورده عليه السلام بنفسه. [من نسيم الرياض للخفاجى (ج:3، ص:516) وذكرها الفيروزآبادى في الصلاة والبشر (ص:(153 [(
٤. اسی طرح امام نووی کہتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی کو اس بات کی وصیت/تلقین کی کہ میرا سلام پہنچادے تو اسے چاہیئے کہ باقاعدہ سلام پیش کرے کہ فلاں بن فلاں آپ کو سلام عرض کررہا ہے۔
الإمام النووي قال في “المجموع شرح المهذب”: وَإِنْ كَانَ قَدْ أُوصِيَ بِالسَّلَامِ عَلَيْهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآله وَسَلَّمَ قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْك يَارَسُولَ الله من فلان بن فُلَانٍ، وَفُلَانُ بْنُ فُلَانٍ يُسَلِّمُ عَلَيْك يَارَسُولَ اللهِ، أَوْ نَحْوَ هَذِهِ الْعِبَارَةِ.
٥. اسی طرح فقہ کی معتبر کتب میں بھی اس بات کی وضاحت ہے کہ سلام پیش کردینا چاہیئے۔
جاء في”الاختيار لتعليل المختار”(1/176)وفي”الفتاوى الهندية”(1/265-266): وَيُبَلِّغُهُ سَلَامَ مَنْ أَوْصَاهُ فَيَقُولُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَارَسُولَ اللهِ مِنْ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ، يَسْتَشْفِعُ بِكَ إِلَى رَبِّكِ فَاشْفَعْ لَهُ وَلِجَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ، ثُمَّ يَقِفُ عِنْدَ وَجْهِهِ مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَةِ، وَيُصَلِّي عَلَيْهِ مَا شَاءَ. ویبلغه سلام من اوصاہ فیقول: السلام علیك یارسول الله من فلان بن فلان. (الفقه علی المذاهب الاربعة)
خلاصہ کلام
درود اور سلام کی کثرت مطلوب بھی ہے اور محبوب بھی، لہذا ہر مسلمان کو اس کی پابندی کرنی چاہیئے، اور اگر کبھی ایسا موقعہ ہو کہ کوئی سفر مدینہ پر جانے والا ملے تو اس سے بھی اپنا سلام عرض کردینے کا ضرور کہنا چاہیئے کہ اس میں آپ علیہ السلام سے محبت وعقیدت کے اظہار کے ساتھ ساتھ سلف صالحین کی اتباع بھی ہے.
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ